نیپچون کا ’قبرستان‘ دریافت
16 اگست 2010سپیس گریویارڈ یا ’’خلا میں موجود مردہ علاقے‘‘ میں پایا جانے والے اس چھوٹے سے سیارچے پر روشنی کے ایسے شیڈز موجود ہیں، جو نظام شمسی کے ابتداء کا پتہ دیتے ہیں۔ سائنسدانوں کا خیال ہے کہ نیپچون کے اس قبرستانی علاقے میں 150 دیگر اجرام دریافت کے منتظر ہیں۔
اس نئے سیارچے کو Carnegie Institution کے ڈاکٹر سکاٹ شیپرڈ اور ہوائی کی گیمینائی خلائی رصدگاہ کے ڈاکٹر چاڈوِک تروجیلو نے مشترکہ طور پر دریافت کیا ہے۔ ان کی اس دریافت کے حوالے سے تفصیلی رپورٹ سائنس نامی جریدے میں شائع ہوئی ہے۔
اس سے قبل مشتری کے مدار میں ایسے دو لاکھ سیارچے دریافت کئے جا چکے ہیں تاہم نظام شمسی کے آٹھویں سیارے نیپچون کے مدار میں دریافت کیا جانے والا یہ چھٹا خلائی قبرستان ہے۔
خلائی قبرستان کیا ہوتا ہے؟
ایسے خلائی اجرام، کسی سیارے کے مدار میں گردش کرتے ہیں مگر ’’ڈیڈ زون‘‘ میں ہونے کی وجہ سے نہیں ٹکراتے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ تجاذبی قوت ان دنوں اجرام کے درمیاں توازنی رفتار پیدا کر دیتی ہے، یعنی بڑا سیارہ اور چھوٹا سیارہ ایک ہی مدار میں ایک ہی رفتار سے گردش کرتے چلے جاتے ہیں۔
یہ ڈیڈ زون کسی سیارے سے 60 ڈگری آگے یا پیچھے ہو سکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ بڑے سیارے کی طرف بڑھنے والا ’خلائی کچرہ‘ یعنی چھوٹے چھوٹے پتھر وغیرہ سیارے پر گرنے کی بجائے اس سیارچے پر گرتے چلے جاتے ہیں۔ اسی وجہ سے ایسے سیارچے کو خلائی قبرستان کہا جاتا ہے۔
ڈاکٹر شیفرڈ کے مطابق ان کی ٹیم نے اس سیارچے کی دریافت کے لئے ایک منفرد ترکیب کا استعمال کیا تاکہ سیارے سے منعکس ہونے والی روشنی کے باعث چھپ جانے والے اس سیارچے کو واضح انداز سے دیکھا جا سکے۔ اس ترکیب میں دونوں اجرام کے درمیان موجود خلائی گرد کو ماسک کے طور پر استعمال کرتے ہوئے منعکس ہونے والی روشنی کو اس سیارچے کو دیکھنے کی راہ میں حائل ہونے سے بچا یا گیا۔
اس دریافت کے لئے ہوائی میں نصب آٹھ اعشاریہ دو میٹر کی جاپانی سوبارو دوربین استعمال کی گئی۔ شیفرڈ نے بتایا کہ نیپچون کے مدار میں ممکنہ طور پر 150 دیگر سیارچے بھی موجود ہیں تاہم خلائی گرد کے باعث انہیں اب تک دیکھا نہیں جا سکا ہے۔
رپورٹ : عاطف توقیر
ادارت : عصمت جبیں