وادی غذر: انمول خزانے اور خوابیدہ وارث
7 ستمبر 2021ہنزہ میں دو سال ایک ہوٹل اور ایک ریستوران چلانے کے بعد میں ایک عجب سے مرض میں مبتلا ہو گیا ہوں۔ کہیں بھی سیاحت کے لیے نکلوں تو ہر جگہ کو اس تناظر میں ضرور دیکھتا ہوں کہ کیا یہاں ہوٹل بن سکتا ہے؟ یا یوں کہیے کہ لاشعوری طور پر ہر وقت ہوٹل کے لیے موزوں جگہ کی تلاش میں لگا رہتا ہوں۔ مزے کی بات یہ ہے کہ میرا مسقبل قریب یا بعید میں دوبارہ اس شعبہ کی جانب جانے کا قطعی کوئی ارادہ نہیں لیکن اس کے باوجود اس خیال سے میں چھٹکارا نہیں پا سکتا۔ اسی لیے اس کو مرض کا نام دیا ہے۔ ایک مثالی ہوٹل کے خدوخال جو میرے ذہن میں گھومتے رہتے ہیں وہ کچھ اس طرح ہے کہ پانی کی کوئی آبشار یا جھرنا پاس بہہ رہا ہو اور اگر یہ بھی نہ ہو تو کم از کم یک قُل یعنی واٹر چینل کا گزر ہو رہا ہو۔ پہاڑ ایسے ہوں کہ طلوع آفتاب و غروب آفتاب کا منظر دیدنی ہو۔ پہاڑ بالکل سر پر نہ جھکے ہوں بلکہ قدرے فاصلے پر ہوں۔ ہوٹل سے دس منٹ کی پیدل مسافت پر دریا ہو جہاں اس کے ساحل پر ریت ہی ریت ہو۔ جھاڑیوں کے علاوہ چند بڑے تن آور درخت ہوں اور ایک جنگلی سا ماحول ہو۔ ٹریفک کی پاں پاں سے جگہ محفوظ ہو۔
اب ان کڑی شرائط کو ذہن میں رکھتے ہوئے آپ ایک ہوٹل بنانے کا منصوبہ بنائیے اور گلگت سے نکل کر وادی غذر کی جانب سفر کیجیے۔ جیسے ہی آپ بیس پچیس منٹ کی ڈرائیو کے بعد ہینزل پہنچیں گے تو آپ کا ماتھا ٹھنکے گا۔ آپ کو ہینزل اک ایسی مثالی جگہ لگے گا جہاں آپ اپنے خوابوں کی تعبیر پا سکتے ہیں۔ ہینزل آتے ہی ایک طرف ایک بدھا کا سٹوپا نظر آئے گا جس کو دیکھ کر آپ کا دل باغ باغ ہو جائے گا کہ بالکل یہی ہینزل کا وہ مقام ہے جہاں قدرت نے آپ سے ایک سادہ مگر فطری حوالے سے ایک شاندار ہوٹل بنوانے کا منصوبہ بنا رکھا ہے۔ ہینزل میں جیسے ہی داخل ہوتے ہیں تو درختوں کی ایک گھنی سرنگ آتی ہے جہاں آپ کا ہاتھ دن کے وقت بھی ہیڈ لائٹس آن کرنے جانب جاتا ہے لیکن آپ اپنے اوپر جبر کر کے اس شوخے پن سے باز رہتے ہیں۔ درختوں کی یہ سرنگ نہ صرف ٹھنڈی ہے بلکہ گھنے درختوں کا جھکاؤ سڑک کی طرف ہے۔
ہینزل کا مقام ہوٹل بنانے کے لیے اس لیے بھی موزوں لگتا ہے کہ گلگت میں وہ سیاح جو شہر کے شور شرابے میں نہیں ٹھہرنا چاہتے ان کے لیے بیس پچیس منٹ کی ڈرائیو کر کے ہیزل میں قیام کر نا کوئی مشکل کام نہیں ہوگا۔ یوں اس جگہ ہوٹل ہر طرح سے ایک کامیاب تجربہ ثابت ہو سکتا ہے۔ ہینزل کیوں کہ اچانک وارد ہوتا ہے اور آپ ذہنی طور پر بالکل بھی تیار نہیں ہوتے تو اس لیے یہاں سے نکلنے میں ایک دقت کا سا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہینزل سے نکلتے ہی بنجر سلسلہ شروع ہو جاتا ہے لیکن یہ ایک ایسا بنجر سلسلہ ہے کہ جہاں آنکھیں لگاتا خاکستری رنگ دیکھ کر دُکھتی نہیں ہیں کیونکہ دریا سڑک کے ساتھ ساتھ چلتا ہے۔
آگے جا کر سڑک کی دوسری اطراف گھنے درختوں کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے۔ اگر آپ گلگت بلتستان میں سیاحت کر چکے ہیں تو یہ سلسلہ آپ کے لیے کسی طور اجنبی نہیں ہوتا کہ پہاڑوں میں جہاں کہیں نالہ یا پانی کا چشمہ ہو گا وہاں آبادی ہو گی لیکن یہاں معاملہ کسی قدر مختلف ہے۔ گلگت بلتستان میں عمومی طور پر ایسی آبادیاں مختصر ہوتی ہیں اور پانچ سے دس منٹ کی ڈرائیو کے بعد پھر بنجر سلسلہ شروع ہو جاتا ہے لیکن وادی غذر میں جب دریا کے دونوں اطراف سبزے شروع ہوتے ہیں تو کافی دیر تک مسسلسل ساتھ چلتے ہیں۔ ان سبزوں کو دیکھ کر دو باتیں سمجھ آ تی ہیں کہ ایک تو پانی کی فراوانی ہے اور دوسرا مقامی لوگ بے حد محنتی ہیں جو قُل یا واٹر چینل کو کھود کر اس قدر دور تک لے گئے ہیں اور داس یعنی بنجر علاقوں کو قابل کاشت بنا لیا ہے۔
وادی غذر میں دریا کی دوسری طرف آپ کو ایک کمال آبادی نظر آتی ہے، اس آبادی کا نام شیر قلعہ ہے اور آبادی کیا ہے ایک گھنا جنگل ہے جس میں مختلف جگہوں پر مکانات کا سلسلہ ہے۔ آپ دریا پر ایک خوبصورت پل کو عبور کرتے ہیں تو چند دکانیں نظر آتی ہیں۔ انہیں دکانوں سے ذرا پہلے ایک عام سا دروازہ ہے۔ آپ کا کوئی مقامی دوست واقف ہو تو وہی آپ کو بتا سکتا ہے کہ عام سے دروازے کے اندر کیا ہے وگرنہ آپ تصور بھی نہیں کر سکتے ہیں اس دروازے کے اندر کچھ بہت خاص ہے۔
دروازہ کھلتے ہی ایک شخصیت آپ کو ملے گی جن کا نام راجہ وقار ہے ۔ معلوم ہو گا کہ یہ یہاں کی رائل فیملی کے چشم و چراغ ہیں۔ راجہ وقار کی شخصیت سے مل کر آپ کو پہلا احساس یہ ہو گا کہ کس قدر سادہ انسان ہیں۔ راجہ وقار کو ملکر ایک احساس اور بھی ہوتا ہے جس کا ذکر بعد میں کرتے ہیں۔
راجہ وقار سے معانقے کے بعد آپ کو پہلی دفعہ احساس ہو گا کہ آپ کہاں کھڑے ہیں۔ ایک بہت ہی وسیع و عریض باغ جہاں پھول ہی پھول ہی کھلے ہیں اور کچھ گھوڑوں کی زندگی کا مقصد ہی یہ ہے کہ پورا دن انہوں نے اس وسیع باغ کی دوڑ کر پیمائش کرنی ہے۔ گھوڑے پوری طاقت سے بھاگ کر باغ کے ایک کونے تک جاتے ہیں اور پھر بھاگ کر دوسرے کونے میں پہنچ جاتے ہیں۔ اس منظر کو دیکھ کر آپ کو پہلا احساس یہ ہو گا کہ مقامی لوگوں کے ساتھ واقفیت کس قدر ضروری ہے وگرنہ آپ کے فرشتوں کو خبر نہ ہوتی کہ ایک عام سے دروازے کے اندر ان گنت پھول ہیں اور کچھ گھوڑے ہمہ وقت باغ کی پیمائش کر رہے ہیں۔
یہیں آپ کو بتایا جاتا ہے کہ اس باغ اور حویلی کی دوسری طرف ایک قدیم مسجد ہے ۔ آپ باغ کے طلسمات میں کھوئے کھوئے مسجد کی جانب چلتے ہیں۔ مسجد پر پہلی نگاہ پڑتے ہی آپ پر سکتہ طاری ہو جاتا ہے۔ قریب قریب دو سو سال قدیم مسجد کے درودیوار پر صدیوں پرانی قدامت قائم دائم ہے۔ لکڑی پر اس قدر خوبصورت کام ہوا ہےکہ آپ تخیل میں دو سو سال پرانے اس کاریگر کو داد دینے میں مصروف ہو جاتے ہیں۔ دو سو سال پہلے کے زمانے میں ان کاریگروں کو چشم تخیل سے کام کرتا دیکھتے ہیں جن کی ہڈیاں بھی شاید اب بوسیدہ ہو چکی ہوں لیکن ان کا کام آج بھی شیر قلعہ کے ایک عام سے دروازے کے اندر ایک باغ عبور کر کے ایک مسجد کی شان و شوکت بڑھا رہا ہےجس کی پچھلی طرف گھوڑے ایک باغ کی پیمائش میں مصروف ہیں۔
مسجد سے واپس آکر آپ کو حویلی میں لے جایا جاتا ہے۔ یہ ایک وسیع و عریض شاندار حویلی ہے جس کے کچھ کمرے مکمل طور پر عجائب گھر ہیں۔ ایک کمرے میں شاہی خاندان کی تصاویر ہیں اور ڈھیر ساری ایسی تصاویر ہیں جن میں گذشتہ ایک سو برسوں میں پوری دنیا سے جو غیر ملکی یہاں آئے نظر آتے ہیں۔
شیر قلعہ کے اس شاندار باغ، حویلی، مسجد اور راجہ وقار کو دیکھ کر آپ کو احساس ہوتا ہے کہ ایسا شاندار باغ حویلی اور مسجد سیاحوں کی نظروں سے اوجھل کیوں ہے؟ یہ تو سیاحت کے حوالے سے ایک انتہائی شاندار 'پروڈکٹ‘ ہے؟ ہنزہ میں تو کیا زبردست طریقے سے چھوٹی سی چھوٹی چیز کو بھی شاندار طریقے سے بیچا جاتا ہے تو یہ جگہ تو غذر کا ایک کمال سیاحتی مقام ہو سکتا ہے۔ اگر ہم یہ کہیں کہ ہنزہ میں شرح خواندگی بہت بہتر ہے تو غذر بھی تعلیمی میدان میں کسی طور پیچھے نہیں ہے۔پھر وجہ کیا ہے؟ کیا ارادتا اس کو اوجھل رکھا گیا ہے؟
لیکن راجہ وقار کی سادگی کو دیکھتے ہوئے علم ہوتا ہے کہ نہیں ارادتاﹰ ایسا نہیں کیا گیا بلکہ یہ خوابیدگی کے سبب ہے۔ انمول خزانوں کے خوابیدہ وارثوں سے یہ پہلی ملاقات تھی۔