وادی ہنزہ میں خواتین کے لیے کوہ پیمائی کا اسکول
22 اکتوبر 2014شِمشال ماؤنٹینئرنگ اسکول کے ایک کمرے میں لڑکیوں کا ایک گروپ زمین پر بیٹھا ہوا ہے۔ فرش پر قالین بچھا ہوا ہے اور سامنے ایک استاد وائٹ بورڈ پر مختلف ڈایاگرامز بنا رہا ہے۔ وہ ان طالبات کو دنیا کی اونچی چوٹیوں کو سر کرنے کے طریقے سمجھا رہا ہے۔ نعمت کریم نامی ایک استاد نے لڑکیوں کو خبردار کرتے ہوئے کہا کہ اس دوران احتیاط کی اشد ضرورت ہے، تمام تر سامان اور رسی کو ساتھ لینا نہیں بھولنا اور پہاڑ پر چڑھنے کے دوران معمولی سے بھی غلطی جان لیوا ثابت ہو سکتی ہے۔ کریم کی اس کلاس میں آٹھ طالبات موجود ہیں اور یہ جلد ہی عملی طور پر کوہ پیمائی شروع کرنے والی ہیں۔ یہ شِمشال ماؤنٹینئرنگ اسکول میں لڑکیوں کا پہلا گروپ ہے۔ اس اسکول کے قیام میں اطالوی کوہ پیما سیمونے مورو نے بھی اہم کردار ادا کیا ہے۔
ایک 23 سالہ لڑکی تخت بیکا نے کہا کہ اس اسکول کے کھلنے سے ان کے خواب کو تعبیر مل گئی ہے۔ انہوں نے بتایا کہ ان کے بھائی اور چچا کوہ پیما ہیں اور وہ پچپن میں اس مقصد کے لیے استعمال ہونے والے آلات سے کھیلا کرتی تھیں۔ وہ کہتی ہیں کہ وہ ان کے کھلونے تھے۔ اسی طرح دوآر بیگم کے لیے بھی پہاڑوں کو سَر کرنا ایک خاندانی روایت ہے۔ وہ بتاتی ہیں کہ وہ گائیڈ بننا چاہتی ہیں تاکہ آمدنی کا کوئی معقول ذریعہ ہو۔ ان کے بقول وہ اپنے بچوں کے بہتر مستقبل کے لیے یہ خطرہ مول لینے پر تیار ہیں۔ اسی طرح گلشن بی بی بھی اپنے شوہر کے انتقال کے بعد کوہ پیما بننے کی خواہش مند ہیں۔
شِمشال وادیء ہنزہ میں سب سے زیادہ اونچائی پر واقع ہے اور یہ اس وادی کا آخری آباد مقام ہے۔ عام طور پر اس علاقے میں اسمٰعیلی فرقے کے لوگ آباد ہیں اور ان کا شمار اعتدال پسند مسلمانوں میں ہوتا ہے۔ تاہم اب علاقے کی خواتین گھروں سے باہر نکل کر معاشرے میں رسم و رواج کو تبدیل کرنا چاہتی ہیں۔ وہ گھریلو کام کاج کے علاوہ کچھ اور کرنے کی بھی خواہش مند ہیں۔ وہ چاہتی ہیں کہ اُنہیں مختلف شعبوں میں، جیسا کہ کوہ پیمائی یا پھر بڑھئی کی تربیت دی جائے تاکہ وہ ہمالیہ کے پہاڑیوں کو سر کرنے کے لیے آنے والے سیاحوں کی گائیڈ بن سکیں۔ عام طور پر یہ کام مرد ہی کرتے ہیں۔
اس علاقے تک پہنچنے کے لیے انتہائی دشوار گزار راستوں سے گزرنا پڑتا ہے۔ اس دوران پتھریلی سڑکیں ہیں اور لکڑی سے بنے ہوئے پلوں پر سے گاڑی گزرتی ہے۔ شِمشال میں نہ تو پانی کا انتظام ہے اور نہ ہی ابھی تک وہاں بجلی دستیاب ہے۔ چینی سرحد کے قریب واقع اس علاقے میں خواندگی کی شرح 98 فیصد ہے۔ ماؤنٹ ایورسٹ سر کرنے والی پاکستان کی پہلی خاتون کوہ پیما ثمینہ بیگ کا تعلق بھی اسی علاقے سے ہے۔