1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

والدین کی وراثتی تکالیف اور نئی نسل

13 اگست 2022

اٹھائیس سالہ عالیہ نے بچپن سے ماں کی فطرت میں غصے کی شدت دیکھی اور باپ کے رویے میں لاپرواہی۔ اسے یاد نہیں کہ کبھی ماں نے محبت سے اس کی طرف توجہ دی ہو۔ یا باپ نے کبھی شفقت سے پڑھائی کے اخراجات پورے کرنے کی تسلی دی ہو۔

https://p.dw.com/p/4FUJ5
DW Urdu Blogerin Fatima Shaikh
تصویر: privat

ہر مشکل وقت میں ماں کی جانب سے عالیہ نے ایک ہی جملہ سنا، ''یہ تو سب کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘  ان الفاظ کی گونج اس کے ذہن پر ایسے نقش ہوگئی جیسے لکڑی پر تراشے گئے نقش و نگار۔

والدین کے رویے سے عالیہ نے زندگی میں کئی اصول اپنا لیے جیسے کہ

  • مسائل کو دبا دیا جائے اور ان پر کبھی بھی بات نہ کی جائے۔ یا پھر ان کو نظر انداز کر کے ان سے پیچھا چھڑانے کی کوشش کی جائے۔
  • ہر انسان زندگی میں ایک جیسے مسائل سے دوچار ہوتا ہے اس لیے پریشانیوں پر بات کرنے کا کوئی خاطر خواہ نتیجہ نہیں ہوسکتا۔
  • بڑے سے بڑے مسئلے کو گھر میں کبھی شئیر نہ کیا جائے کیونکہ ایک ہی جواب متوقع ہے، ''یہ تو سب کے ساتھ ہوتا ہے۔‘‘ آخر میں مسئلے کے ساتھ خود ہی ایڈجسٹ کرنا ہے۔
  • ڈکٹیٹرشپ زندگی کے ہر موڑ پر اہم اور کارآمد طریقہ ہے۔

زندگی کی تیئیس بہاریں دیکھنے کے بعد عالیہ کو اس بات کا احساس ہوا کہ ماں کے رویے کی تلخی اور باپ کی فطرت کی لاپرواہی شدت اختیار کر چکی ہے۔ لہذا اس نے دوسرے بہن بھائیوں کے برعکس والدین سے دوستی کرنے کی ٹھانی۔

پانچ برس میں اس دوستی نے کئی پوشیدہ رازوں کے پردے کھولے۔ عالیہ کی والدہ بچپن سے آرٹس اینڈ کرافٹ میں بہت ماہر تھیں اور وہ بیڈمنٹن کی ایک بہترین کھلاڑی تھیں۔ لیکن والد کی پابندیوں کی وجہ سے نہ تو وہ کرئیٹیوٹی کا شوق پورا کر سکیں اور نہ ہی نیشنل اسپورٹس مقابلوں میں دوسرے شہر جا سکیں۔

آرٹسٹک مائنڈ کے ساتھ ساتھ عالیہ کی والدہ کو نت نئے فیشن کے کپڑے سینے اور پہننے کا بھی بہت شوق تھا۔ لیکن باپ کی سختی اور خوف کی وجہ سے ان کا یہ شوق بھی زندگی کے دھارے میں بہ گیا۔

سونے پر سہاگا بیس برس کی عمر میں عالیہ کے نانا نے بیٹی کی شادی کر دی۔ اپنے ادھورے خواب لے کر جب وہ سسرال پہنچیں تو معلوم چلا کے نئے رشتے قدامت پسند اور تعلیم سے بے خبر ہیں۔

گویا زندگی کے ابتدائی بیس سالوں میں عالیہ کی ماں پر تکالیف کا ایک ان گنت بوجھ پڑ گیا جس کی جھلک غصے کی صورت میں ان کی فطرت اور رویے میں پیوست ہو گئی۔

دوستی مزید پکی ہوئی تو پتا چلا کہ عالیہ کی نانی کے ساتھ کم و بیش اسی قسم کا رویہ ان کے والدین کا تھا۔

پینسٹھ برس کی عمر میں عالیہ کے والد نے ماضی کے پردوں کو چاک کیا تو پتا چلا کہ ان کے والدین نے کبھی بھی ان کی طرف کوئی توجہ نہیں دی۔ فکر تو بہت دور کی بات، کھانے پینے سے لے کر پہننے اوڑھنے اور پڑھائی تک ماں باپ کو کبھی اس بات کی طرف دھیان بھی نہ گیا کہ اولاد سے اس کی بنیادی ضروریات پر بات کی جائے۔

عالیہ کے دادا کے ساتھ کم و بیش یہی رویہ ان کے والدین کا بھی تھا۔

عالیہ کے والدین نے وراثت میں ملی ہوئی تکالیف بچوں کو منتقل کر دیں جنہوں نے تیسری نسل میں ایک نئی صورت اختیار کر لی۔ انسان واقعات کو ہمیشہ یاد نہیں رکھتا لیکن ان سے جڑے ہوئے جذبات اس کی زندگی کا ایک اہم حصہ بن جاتے ہیں۔

تین لاپتہ لڑکیوں کا سراغ اور پاکستان کا ٹوٹتا ہوا فیملی سسٹم

بیٹی کی کمائی والدین کے لیے طعنہ کیوں؟

DW Urdu Blogerin Fatima Shaikh
فاطمہ شیخ کراچی میں مقیم ایک صحافی ہیں۔ زیادہ تر سماجی مسائل پر لکھتی ہیں۔