واٹس ایپ ’ایس ایم ایس‘ کو نگل رہا ہے
2 فروری 2016واٹس ایپ کا آغاز 2009ء میں ہوا تھا۔ اس وقت لوگ ایک دوسرے سے پوچھ رہے تھے کہ ایس ایم ایس اور اسی طرح کی دیگر سہولیات ہونے کے باوجود واٹس ایپ کون استعمال کرے گا؟ لیکن آج لوگ پوچھتے ہیں کیا مختصر پیغام رسانی یا ایس ایم ایس کی کوئی ضرورت ہے؟
ایس ایم ایس آج بھی لکھی جاتی ہیں لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس سہولت کو استعمال کرنے والوں کی تعداد میں کمی آتی جا رہی ہے۔ 1995ء سے جرمنی میں ایس ایم ایس کا رجحان بڑھنا شروع ہوا۔ اُس وقت 160 حروف کے ساتھ ایک پیغام لکھا جا سکتا تھا۔ یہ رواج پروان چڑھا اور 2012ء میں یہ اپنی انتہا کو پہنچ گیا۔ تاہم اس کے بعد سے ایس ایم ایس کا زوال شروع ہوا اور جو آج تک جاری ہے۔ 2012ء میں 59 ارب ایس ایم ایس بھیجی گئیں اور 2013ء میں یہ تعداد کم ہو کر 38 ارب رہ گئی۔ بات اگر 2014ء کی کی جائے تو صرف جرمنی میں ساڑھے بائیس ارب ایس ایم ایس پیغام بھیجے گئے۔
وجہ کیا ہے؟
یونیورسٹی ڈیوس برگ ایسن سے تعلق رکھنے والے ٹورسٹن گیرپوٹ کہتے ہیں ’’وجہ بالکل واضح ہے اور وہ ہے واٹس ایٹ ایپلیکیشن۔‘‘ وہ مزید کہتے ہیں کہ 2013ء سے واٹس ایپ کے استعمال میں روزانہ کی بنیادوں پر اضافہ ہو رہا ہے۔ گیرپورٹ کے بقول اس کے علاوہ سماجی ویب سائٹ فیس بک بھی فوری پیغام رسانی کی سہولت فراہم کر رہی ہے۔ اس دوڑ میں ایپل بھی پیچھے نہیں ہے۔ اس کمپنی نے 2011ء میں آئی میسج سروس شروع کی تھی، جسے ایپل کے تمام آلات پر استعمال کیا جا سکتا ہے۔
اسی طرح ایس ایم ایس کے حریفوں میں تھریما بھی شامل ہے۔ اسے 2012ء میں متعارف کرایا گیا تھا اور اس سہولت کی خاص بات یہ ہے کہ اس کے ذریعے بھیجے جانے والا پیغام کوڈ کی صورت میں ہوتا ہے اور اسے صرف وہی پڑھ سکتا ہے، جسے یہ بھیجا گیا ہو۔ سی آئی اے کے سابق اہلکار ایڈورڈ سنوڈن کی جانب سے خفیہ دستاویزات منظر عام پر لائے جانے کے بعد ’ Threema‘ کی طلب میں اضافہ ہوا تھا۔ اسی طرح چین اور دیگر ممالک میں بھی ایس ایم ایس کی متبادل سروسز متعارف کرائی جا چکی ہیں۔
ماہرین کہتے ہیں کہ آج کے دور میں اگر کوئی موبائل ٹیلیفون کے ذریعے پیغام یا تصویر بھیجنا چاہتا ہے تو وہ انٹرنیٹ پر موجود دیگر سروسز استعمال کرتا ہے اور یہ رجحان آئندہ بھی ایسے ہی جاری رہے گا۔