واپس لوٹنے والے جہادیوں سے خطرات بڑھتے ہوئے
19 اکتوبر 2017خبر رساں ادارے اے ایف پی نے سفارتی ذرائع کے حوالے سے بتایا ہے کہ دنیا کے سات امیر ترین ممالک یا سات کے گروپ کے وزرائے داخلہ اطالوی جزیرے اسکیا میں ہونے والے اس دو روزہ اجلاس میں داعش کے یورپ میں ممکنہ حملوں پر توجہ مرکوز رکھیں گے۔ شام اور عراق میں اس شدت پسند گروہ کی پسپائی کے نتیجے میں خدشہ ہے کہ اس کے غیر ملکی جنگجو یورپی ممالک کا رخ کرتے ہوئے وہاں دہشت گردانہ کارروائیاں کر سکتے ہیں۔
یورپ میں اسلامک اسٹیٹ کا منڈلاتا ہوا خطرہ
یورپ میں تارکین وطن کے باعث مزید حملے ممکن، سلوواک وزیر اعظم
یورپی ملک فرانس میں اسلام سے متعلق چند اہم حقائق
یہ اجلاس ایک ایسے وقت پر منعقد کیا جا رہا ہے، جب ایک دن قبل ہی امریکی حمایت یافتہ شامی فورسز نے داعش کے نام نہاد دارالحکومت الرقہ کو بازیاب کرا لیا تھا۔ قبل ازیں عراق میں بھی ان جہادیوں کو کئی محاذوں پر پسپا کیا جا چکا ہے۔ انتہا پسند گروہ داعش کی اس شکست کے نتیجے میں عالمی خفیہ اداروں نے خبردار کیا ہے کہ ان ممالک میں فعال جنگجو اب وہاں سے فرار ہو کر دیگر ممالک کا رخ کر رہے ہیں۔
کئی ماہرین پہلے بھی خبردار کر چکے تھے کہ گزشتہ کچھ ماہ سے شام اور عراق میں شدت پسند تنظیم داعش کے کئی جنگجو وہاں سے فرار ہو چکے ہیں۔ ان کے بارے میں خیال کیا جا رہا ہے کہ وہ ترکی جا رہے ہیں، جہاں سے وہ یورپ پہنچنے کی کوشش کر سکتے ہیں۔ ایسے خدشات بھی ہیں کہ یہ جہادی اپنی نام نہاد خلافت کی تباہی کا بدلہ لینے کی خاطر یورپی ممالک میں حملے کر سکتے ہیں۔
یہ امر اہم ہے کہ سن دو ہزار چودہ اور دو ہزار سولہ کے درمیان مغربی ممالک سے تعلق رکھنے والے ہزاروں شہری شام اور عراق گئے تھے، جہاں انہوں نے داعش کے ساتھ مل کر پرتشدد کارروائیاں کی تھیں، جن میں درجنوں ہلاکتیں بھی ہوئی تھیں۔ اب یہی یورپی جہادی واپس اپنے اپنے ممالک پہنچنے کی کوشش میں ہیں۔
محتاط اندازوں کے مطابق صرف فرانس سے تعلق رکھنے والے ایک ہزار افراد نے داعش میں شمولیت اختیار کی تھی، جن کی اب فرانس واپسی ایک بڑا خطرہ قرار دی جا رہی ہے۔ اسی تناظر میں فرانس میں کئی حکام نے حالیہ ہفتے کے دوران کہا تھا کہ بہتر ہو اگر یہ جہادی شام اور عراق میں ہی لڑتے لڑتے مر جائیں۔
اطالوی وزیر داخلہ مارکو منیتی نے بھی خبردار کیا ہے کہ شام اور عراق میں داعش کی شکست کے نتیجے میں غیر ملکی جنگجوؤں کا ایک بڑا گروہ خطرے کا باعث بن سکتا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ عراق اور شام میں قریب سو ممالک سے تعلق رکھنے والے پچیس تا تیس ہزار غیر ملکی جنگجو تھے، جن میں سے کچھ ہلاک بھی ہوئے لیکن یہ ممکن ہے کہ دیگر واپس اپنے اپنے ممالک جانے کی کوشش کریں گے۔
اس صورتحال میں اسکیا میں ہونے والے جی سیون کے اس وزارتی اجلاس میں ایک متفقہ حکمت عملی ترتیب دینے کی کوشش کی جائے گی۔ سفارتی ذرائع کے مطابق عالمی رہنما آن لائن دہشت گردی جیسے اہم اور خطرناک معاملے پر بھی مشترکہ موقف اختیار کرنے کی کوشش کریں گے۔ بتایا گیا ہے کہ اس لیے سماجی رابطوں کی اہم ویب سائٹس بشمول گوگل، مائیکروسافٹ، فیس بک اور ٹوئٹر کے نمائندے بھی اس اجلاس میں شریک ہوں گے۔ جی سیون کے رکن ممالک میں برطانیہ، کینیڈا، فرانس، جرمنی، اٹلی، جاپان اور امریکا شامل ہیں۔