وزیراعظم نریندر مودی کو اس ’تباہی‘ کا جواب دینا ہو گا!
29 اپریل 2021جب بھی یہ فون بجا ہے تو کسی دوست یا ان کے کسی قریبی کی رحلت یا کسی ہسپتال میں داخل ہونے کی خبر موصول ہوئی ہے۔ میرے کئی جاننے والے اس وقت دہلی کے مختلف ہسپتالوں میں موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ سوشل میڈیا پر کوئی آکسیجن، کوئی ریمیڈسور دوائی کے لئے دہائی دے رہا ہے، تو کسی کو وسائل کے باوجود ہسپتال میں بیڈ نہیں مل رہا۔ بے بسی کے اس نظارے میں دن بدن اضافہ ہو رہا ہے۔ لگتا ہے کہ بھارت کے دارلحکومت دہلی کی پوری آبادی کو لاچار و بے مددگار چھوڑ دیا گیا ہے۔
اس افراتفری اور نفسانفسی کے عالم میں امید تھی کہ وزیراعظم نریندر مودی قوم کو دلاسہ دے کر کورونا وائرس کو شکست دینے کے کسی جامع پروگرام کا اعلان کریں گے۔ مگر وائے افسوس! یہ امیدیں اس وقت ہوا ہو گئیں، جب انہوں نے پوری ذمہ داری عوام اور صوبائی حکومتوں پر ڈال دی۔ عوام کو صبر و تحمل کی تلقین کی اور لاک ڈاؤن کا فیصلہ صوبائی حکومتوں کی صوابدید پر ڈال دیا۔ پچھلے سال جب کورونا کے بس چند ہی کیس بھارت میں رپورٹ ہوئے تھے، تو انہوں نے اچانک لاک ڈاؤن کا اعلان کر کے پورے ملک کا پہیہ جام کر دیا تھا۔ پوری دنیا نے دیکھا کہ کس طرح لاکھوں یومیہ مزدور سڑکوں پر آ گئے۔ بمع اہل و عیال اور شیر خوار بچوں کو گود میں لئے، پولیس کی لاٹھیوں سے بچتے بچاتے وہ سینکڑوں میل کا فاصلہ طے کر کے دیہاتوں میں اپنے گھروں کو روانہ ہو گئے۔ شہروں میں اچانک لاک ڈاون سے لاکھوں افراد بے روزگار ہو گئے۔
اس وقت جب کورونا کی دوسری لہر نے پورے ملک کو اپنی لپیٹ میں لیا ہے، تو ہسپتالوں اور سڑکوں پر دردناک مناظر دیکھنے میں آ رہے ہیں۔ وزیر اعظم نے صوبائی حکومتوں کو ہدایت دی کہ لاک ڈاؤن کو آخری حربے کے طور پر استعمال کریں۔ اب ان کو کون پوچھے کہ پچھلے سال جب کورونا کے کئی سو کیس بھی نہیں تھے، تو اس وقت انہوں نے خود ٹی وی پر آ کر اچانک لاک ڈاؤں کیوں کروایا؟ اب اس وقت ملک میں 17.3ملین کیس رپورٹ ہو ئے ہیں اور پچھلے دو ہفتوں سے روز تین لاکھ کیسز کا پتہ لگ رہا ہے، تو ایسے وقت میں وائرس چین کو توڑنے کے لئے لاک ڈاؤن کیوں نہیں لگ سکتا تھا؟
ویسے تو لاک ڈاؤن ہیلتھ انفراسٹرکچر کو بہتر بنانے کے لئے استعمال کیا جاتا ہے، مگر بھارت میں پچھلے سال کے لاک ڈاؤن نے چین توڑی نہ انفراسٹرکچر بن پایا۔ اپنی تقریر میں مودی نے ہندو دیو مالائی کہانیوں کے سہارا لے کر عوام کو بہلانے کی کوشش کی مگر تقریر اعتماد اور ٹھوس اقدامات سے خالی تھی۔ جب یہ طے ہوا تھا کہ 150ضلعی ہسپتالوں میں 162 آکسیجن کے پلانٹ لگائے جائیں گے تو یہ ایک سال تک کیوں پایہ تکمیل تک نہیں پہنچے؟
آخر اس وبا کے بعد بھی مارچ میں پارلیمنٹ میں پیش کئے گئے بجٹ میں صحت عامہ کی مد میں مجموعی قومی پیداوار کا بس 1.26 فیصد ہی کیوں رکھا گیا؟ اگر پچھلے سال وبا کی ابتدائی دنوں میں ہسپتالوں میں آکسیجن وغیرہ کی کمی ہوتی تو اس کو معاف کیا جا سکتا تھا مگر اس وقت طبی سہولیات و آکسیجن کی کمی کے ذمہ دار افراد کو مجرم ہی گردانا جائے گا۔
سن 2017 کی ہیلتھ پالیسی میں حکومت نے خود ہی وعدہ کیا تھا کہ صحت عامہ کے بجٹ کو مجموعی قومی پیداوارکے2.7 فیصد تک لے جایا جائے گا۔ حکو مت نے یہ کارنامہ تو کر دیا کہ ہتھیار درآمد کرنے والے ممالک میں بھارت اب سعودی عرب کے بعد دنیا میں دوسرے نمبر پر ہے مگر کیا ہوا کہ اگر صحت عامہ میں اس کا درجہ 145واں ہے۔ پڑوسی ممالک میں سری لنکا اور بنگلہ دیش کا رینک بلترتیب 71 اور 133ہے۔ چین تو 48ویں نمبر پر ہے، جس کے مقابلے کے لیے ویکسین سفارت کاری شروع کی گئی تھی۔ اس کوشش میں جنوری سے لے کر مارچ تک 65 ملین ویکسین خوراکیں، ایک ملین ریمیڈسور کے انجیکشن، 9,300 میٹرک ٹن آکسیجن اور 20 ملین ٹیسٹنگ کٹ برآمد کر دیے گئے۔ اس کی قیمت اب عوام کو بھگتنا پڑ رہی ہے۔
لاک ڈاؤن میں اس لئے بھی لیت و لعل سے کام لیا گیا کیونکہ پانچ صوبائی اسمبلیوں کے انتخابات کا اعلان کیا گیا اور تمام پروٹوکول کو بالائے طاق رکھ کر لیڈروں بشمول وزیر اعظم اور ان کے دست راست وزیر داخلہ امیت شاہ نے ان کی دھجیاں اڑا دیں۔ وزیراعظم تو عوامی جلسوں میں ہجوم کو دیکھ کر پھولے نہیں سما رہے تھے۔ اتراکھنڈ کے شہر ہری دوار میں کمبھ میلے کی اجازت دے کر باضابط طور پر کورونا وائرس کو دعوت دی گئی۔ اس میلے میں ایک اندازے کے مطابق 46 لاکھ افراد مقدس دریائے گنگا میں اشنان کرنے آ گئے تھے۔ گو کہ اس میلے کو وقت سے پہلے ہی ختم کر دیا گیا تھا مگر وائرس نے اپنا کام کر دیا تھا اور زائرین اس کو پرساد کے روپ میں اپنا ساتھ لے کر گئے۔ چند ہی روز میں اس شہر میں 2,000 کے قریب کورونا کیسوں کا پتہ چلا گو کہ پورے ہجوم کو ٹیسٹ کرنا ممکن نہیں تھا۔ اب یہ پورا ہجوم بھارت کے طول و عرض میں پھیل چکا ہے۔ خود وزیر اعلیٰ تیرتھ سنگھ راوت، جو چند روز قبل تک زیادہ سے زیادہ زائرین کو ہری دوار پہنچے کے لئے اکسا رہے تھے، خود بھی کورونا کا شکار ہو گئے۔
جو افراد اس میلے کے انتظام و انصرام پر مامور تھے، وہی پچھلے سال دہلی کے نظام الدین علاقے میں بنگلہ والی مسجد میں چند سو تبلیغی جماعت کے افراد کے اجتماع پر فقرے کس رہے تھے۔ ان کو کورونا جہادی اور وائرس تک کے نام دیے گئے۔ اس میں قومی میڈیا کے ایک سیکشن نے ان کی بھرپور معاونت کی۔ ایسا نفرت بھرا ماحول تیار کیا گیا کہ دہلی کی بیشتر کالونیوں میں مسلمانوں کا داخلہ بند کر دیا گیا تھا۔ وزیر اعظم کو دھرما اچاریہ سبھا کے سربراہ سوامی اودیشا نند سے اپیل کرنی پڑی کہ وہ اب اس میلے کا اختتام کریں۔ بھارت میں اس وقت سرکاری اعداد و شمار کے مطابق دو ہزار سے زائد افراد روزانہ کورونا وبا کا شکار ہو کر موت کو گلے لگا رہے ہیں۔ ان سب کا ایک ہی سوال ہے،
اے رہبرِ ملک و قوم ذرا
آنکھیں تو اٹھا نظریں تو ملا
کچھ ہم بھی سنیں، ہم کو بھی بتا
یہ کس کا لہو ہے کون مرا
کس کام کے ہیں یہ دین دھرم، جو شرم کا دامن چاک کریں
کس طرح کے ہیں یہ دیش بھگت، جو بستے گھروں کو خاک کریں
یہ روحیں کیسی روحیں ہیں، جو دھرتی کو ناپاک کریں
آنکھیں تو اٹھا نظریں تو ملا