وزیرستان میں دہشت گرد گروپ: آپریشن بلاتفریق، پاکستانی آرمی
2 جولائی 2014یہ پہلا موقع ہے کہ پاکستانی حکام نے افغان طالبان کے حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھی کارروائی کرنے سے متعلق بیانات دیے ہیں۔ اس سے قبل حقانی نیٹ ورک کو پاکستان کی فوجی اسٹیبلشمنٹ کے انتہائی قریب سمجھا جاتا تھا۔ امریکی حکام سن 2003ء سے پاکستانی خفیہ ایجنسی آئی ایس آئی پر حقانی نیٹ ورک کی پشت پناہی کا الزام لگاتے ہوئے شمالی وزیرستان میں اس گروپ کی مبینہ پناہ گاہوں کو ختم کرنے کے مطالبے کرتےآئے ہیں۔ پاکستان نے ہمیشہ حقانی نیٹ ورک سے کسی قسم کے روابط کی تردید کی ہے۔
پاکستانی فوج کی جانب سے چودہ جون کو شمالی وزیرستان میں شدت پسندوں کے خلاف شروع کیے گئے آپریشن میں بھی سب سے بڑا سوال یہی تھا کہ پاکستان مبینہ طور پر برسوں سے اپنا اثاثہ سمھجے جانے والے حقانی نیٹ ورک کے خلاف بھی کارروائی کرے گا یا نہیں؟
اس سوال کے جواب میں پاکستانی فوج کے ترجمان میجر جنرل عاصم سلیم باجوہ اور سرحدی امور کے وزیر لیفٹیننٹ جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے ایک روز قبل غیر ملکی صحافیوں کو بریفنگ دیتے ہوئے کہا تھا کہ حقانی نیٹ ورک ہو یا کوئی اور، دہشت گردی میں ملوث کسی بھی شخص یا گروہ کو برداشت نہیں کیا جائے گا۔
پاکستانی وزیر دفاع خواجہ آصف نے بدھ کے روز پارلیمنٹ ہاؤس کے باہر صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ شمالی وزیرستان میں فوجی کارروائی کا مقصد وہاں سے ہر قسم کے دہشت گردوں کا مکمل صفایا ہے۔ انہوں نے کہا، ’’فوجی جوان آگے بڑھ رہے ہیں اور جب تک یہ فتنہ مکمل طور پر ختم نہیں ہو جاتا، یہ آپریشن جاری رہے گا اور ہم ملک کے کونے کونے میں ان دہشت گردوں کو، شر پسندوں کو ڈھونڈ ڈھونڈ کر ختم کریں گے اور پاکستان میں رونقیں، امن و امان اور سکون واپس آئیں گے۔‘‘
تاہم پاکستانی فوج کی جانب سے شمالی وزیرستان میں جاری فوجی کارروائی کے بارے میں روزانہ کی بنیاد پر جاری کیے جانے والے اپ ڈیٹس میں مقامی اور ازبک جنگجوؤں کے مارے جانے کے دعوے تو کیے جاتے ہیں لیکن ابھی تک حقانی نیٹ ورک کے کسی رکن کے مارے جانے کی کوئی اطلاع نہیں دی گئی۔
حقانی نیٹ ورک کے سربراہ جلال الدین حقانی کا تعلق افغانستان کے صوبہ پکتیکا سے ہے اور ان کی پاکستان کے قبائلی علاقے شمالی وزیرستان میں بھی زمین اورجائیداد ہے۔ جلال الدین حقانی کے زیر اثر جنگجوؤں کو طالبان کی حکومت کے خاتمے کے بعد افغانستان میں امریکا کے خلاف کارروائیاں کرنے والا سب سے خطرناک گروہ مانا جاتا ہے۔ تاہم اب طویل العمری کی وجہ سے جلال الدین حقانی کی جگہ ان کا ایک بیٹا سراج الدین حقانی گروہ کی عسکری کارروائیوں کی نگرانی کرتا ہے۔ اس کے علاوہ حقانی کا ایک بیٹا محمد حقانی امریکی ڈرون میزائل حملے میں جبکہ ایک اور بیٹا نصیر الدین حقانی اسلام آباد کے مضافاتی علاقے بارہ کہو میں نامعلوم حملہ آوروں کی فائرنگ میں مارا گیا تھا۔
دفاعی تجزیہ کار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ طلعت مسعود کا کہنا ہے کہ ماضی کی نسبت اب حالات بہت بدل چکےہیں۔ پاکستان امریکا اور افغانستان کے ساتھ بہتر تعلقات چاہتا ہے اور اس کے لیے ضروری ہے کہ یہ ثابت کیا جائے کہ پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کی افغانستان کے کسی جہادی گروپ سے کوئی ہمدردی نہیں۔ انہوں نے کہا، ’’اس لحاظ سے یہ بڑا ضروری تھا کہ ایک ایسی یکساں پالیسی لائی جائے جس میں ظاہر ہے کہ سراج الدین حقانی کا جو نیٹ ورک ہے وہ بھی شامل ہو۔ یہ ضرور ہے کہ ان کے ساتھ چونکہ آپ کے تعلقات اچھے تھے اور برسوں سے آپ نے ان کو پناہ دی ہوئی تھی، یہ ممکن ہے کہ آپ نے ان سے کہا ہو کہ آپ خود چلے جائیں، بجائے اس کے کہ ہمیں آپ کے خلاف کارروائی کرنا پڑے اور شاید انہوں نے اس مطالبے کو قبول بھی کر لیا ہو۔‘‘
پاکستانی فوج کا کہنا ہے کہ شمالی وزیرستان دہشت گردوں کا ایک مضبوط گڑھ بن گیا تھا جہاں سے وہ پاکستان اور پڑوسی ملک افغانستان میں دہشت گردانہ حملوں کی منصوبہ بندی کرتے تھے۔ خیال کیا جاتا ہے کہ شمالی وزیرستان میں عرب،ازبک اور چیچن شدت پسندوں کے علاوہ چین کے مغربی صوبے سنکیانگ میں حکومت کے خلاف کارروائیاں کرنے والی ایغور مسلمانوں کی تنظیم ایسٹ ترکستان اسلامک موومنٹ (ای ٹی آئی ایم) کے جنگجو بھی موجود تھے۔ پاکستان کا ہمسایہ اور انتہائی قریبی دوست سمھجا جانے والا ملک چین بھی پاکستان سے ای ٹی آئی ایم کے جنگجوؤں کے خلاف کارروائی کا مطالبہ کر رہا تھا۔