وزیر اعظم سے اختلافات، آسٹریلوی وزیر خارجہ مستعفی
22 فروری 2012اس استعفے کے نتيجے ميں آسٹریلیا ميں اب ایک نیا سياسی بحران پيدا ہوتا نظر آنے لگا ہے۔خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق آسٹریلوی وزیر خارجہ رڈ نے امریکی دارالحکومت واشنگٹن میں اپنے استعفے کے اعلان کی وجہ بيان کرتے ہوئے کہا کہ وہ سربراہ حکومت گيلارڈ کے ساتھ اپنے اختلافات کے باعث ان کے ساتھ مزيد کام نہيں کر سکتے۔
انہوں نے اس حوالے سے صحافیوں کو بتایا، ’سچ تو يہ ہے کہ ميں وزير اعظم کی حمايت کے بغير بطور وزیر خارجہ اپنی ذمہ دارياں انجام نہيں دے سکتا اور ايسی صورت ميں ميرا مستعفی ہو جانا ہی بہتر راستہ ہے‘۔
کيون رڈ ماضی ميں موجودہ حکمران لیبر پارٹی کے سربراہ بھی رہ چکے ہیں اور وہ وزير اعظم کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکے ہيں۔ وزير خارجہ کے طور پر ان کے استعفی کے بعد اب لیبر پارٹی میں ان کے حاميوں نے مطالبہ کر ديا ہے کہ پارٹی کی قيادت نئے سرے سے منتخب کی جائے۔
سياسی تجزيہ نگاروں کا کہنا ہے کہ لیبر پارٹی کی قيادت نئے سرے سے منتخب کرنے اور اس عمل میں ممکنہ طور پر کیون رڈ کے کامیاب رہنے کی صورت میں یہ جماعت ملکی پارلیمان میں ان آزاد ارکان کی حمایت سے محروم بھی ہو سکتی ہے، جو اس وقت گیلارڈ حکومت کے حامی ہیں۔
کینبرا سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق اس وقت آسٹریلوی ليبر پارٹی کے رکن عام شہریوں کی اکثریت پارٹی سربراہ کے طور پر جوليا گيلارڈ ہی کی حامی ہے اور بہت کم پارٹی ممبران چاہتے ہیں کہ کیون رڈ دوبارہ اس جماعت کے سربراہ بن جائیں۔ جہاں تک قومی پارلیمان میں لیبر اراکین کی طرف سے ان دونوں سیاستدانوں کی حمایت کے تناسب کا سوال ہے تو روئٹرز کے مطابق کيون رڈ کو پارٹی کے کُل 103 منتخب اراکین میں سے صرف 30 کے قریب نمائندوں کی تائید حاصل ہے۔
اپنے طور پر رڈ کے حاميوں کا يہ دعویٰ بھی ہے کہ سابق وزیر اعظم اور بدھ کو وزیر خارجہ کے طور پر واشنگٹن میں مستعفی ہو جانے والے کیون رڈ آسٹریلوی ووٹروں میں خاتون سربراہ حکومت گیلارڈ کے مقابلے ميں زيادہ مقبول ہيں۔ یہی وجہ ہے کہ لیبر پارٹی کے ایسے عناصر یہ دلیل بھی دیتے ہیں کہ ملک میں اگلے عام الیکشن میں لیبر پارٹی گیلارڈ کے بجائے رڈ کی قیادت میں اپنی کامیابی کی کہیں زیادہ امید کر سکتی ہے۔
اس پس منظر میں کیون رڈ نے اپنے استعفے کا اعلان کرتے ہوئے واشنگٹن ميں ايک پريس کانفرنس میں اپنی سياسی پوزيشن اور ووٹروں میں مقبوليت کا بالواسطہ ذکر کرتے ہوئے یہ بھی پوچھا کہ سال 2013 کی دوسری ششماہی میں آسٹریلیا میں ہونے والے اگلے عام الیکشن ميں اپوزيشن کے خلاف لیبر پارٹی کی فتح کو یقینی بنانے کے ليے کون سا سياستدان بہتر پوزيشن ميں ہے؟
اس استعفے کے نتيجے ميں آسٹریلیا میں نئی سياسی صورتحال پر تبصرہ کرتے ہوئے ٹونی ونڈسر نامی ايک آزاد رکن پارلیمان نے حالات کو پرخطر قرار دیتے ہوئے کہا، ’اگر وہ اسی راستے پر مزید آگے تک گئے تو ہم یقینی طور پر قبل از وقت انتخابات کی طرف بڑھ رہے ہيں‘۔
آسٹريليا ميں وزير اعظم گیلارڈ اور کیون رڈ کے مابين ذاتی اور سیاسی تنازعات کئی ماہ پہلے پیدا ہوئے تھے۔ انہی تنازعات نے کینبرا حکومت کی ساکھ کو بھی کافی حد تک متاثر کیا ہے۔
رپورٹ: عاصم سليم
ادارت: مقبول ملک