وزیر اعظم مودی کی ’من کی بات‘ لوگوں کو بے حد ’ناپسند‘
31 اگست 2020اتوار 30 اگست کو وزیر اعظم نریندر مودی اپنے مستقل ماہانہ ریڈیو پروگرام ''من کی بات" کے 68 ویں ایڈیشن میں جب قوم سے خطاب کررہے تھے تو انہیں غالباً اس بات کا ذرا بھی اندازہ نہیں رہا ہوگا کہ گزشتہ چھ برس میں پہلی مرتبہ ان کی تقریر کو ’لائیک‘ کے مقابلے اتنی زیادہ تعداد میں ’ڈس لائیک‘ ملیں گے۔
یو ٹیوب اور حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے چینلوں پرنشر وزیر اعظم مودی کی 'من کی بات‘ کی ویڈیو کوپیر کی صبح تک 25000 مرتبہ ’ڈس لائیک‘ یعنی پسند کے مقابلے میں 56000مرتبہ ’ڈس لائک‘ یعنی ناپسند کیا گیا۔ حکمراں بھارتیہ جنتا پارٹی کے آفیشیل چینل پر بھی ویڈیو کو پیر کی صبح تک 33000’لائیک‘ کے مقابلے میں دو لاکھ 58 ہزار ’ڈس لائیک‘ مل چکے تھے۔
اس سے بی جے پی کی خاصی سبکی ہورہی ہے، جواپنی ایک بھاری بھرکم ٹیم کے ساتھ سوشل میڈیا پر کافی سرگرم ہے اور اس پر فرضی 'لائیک اور ڈس لائک‘ کے ذریعہ عوام کو گمراہ کرنے کے الزامات لگائے جاتے رہے ہیں۔ پچھلے دنوں مودی حکومت پر اپنے مفادات کے لیے بھارت میں فیس بک کو کنٹرول کرنے کا الزامات بھی عائد کیے گئے تھے۔
بی جے پی کے چینل کے سبسکرائبرس کی تعداد 35 لاکھ ہے اور اس چینل پر وزیر اعظم کے کسی بھی ویڈیو کو بالعموم دس لاکھ افراد دیکھتے ہیں۔ لیکن چھ برسوں میں یہ پہلا موقع ہے جب اسے اتنی بڑی تعداد میں 'ناپسند‘ کیا گیا ہے۔
بتایا جاتا ہے کہ اس کی وجہ ٹوئٹر پر ٹرینڈ کرنے والا ہیش ٹیگ 'اسٹوڈنٹس ڈس لائیک پی ایم مودی‘ ہے۔ ویڈیو کو تمام جگہوں پر ’لائک‘ سے زیادہ ’ڈس لائک‘ کرنے کے لیے ان طلبہ نے ایک مہم شروع کی تھی جو کورونا وائرس کے درمیان میڈیکل اور انجینئرنگ کالجوں میں داخلے کے لیے مجوزہ مسابقتی امتحانات بالترتیب نیشنل ایلی جبلیٹی کم انٹرنسٹ ٹسٹ(نیٹ) اور جوائنٹ انٹرنس ایگزامنیشن (جے ای ای) کو ملتوی نہیں کرنے کے حکومت کے فیصلے کی مخالفت کر رہے ہیں۔
پیر کی صبح تک اس ہیش ٹیگ کے ساتھ تقریباً دو لاکھ 76 ہزار ٹوئٹ کیے جاچکے تھے۔ بیشتر ٹوئٹس میں کہا گیا ہے کہ اس مہم سے مودی حکومت کو یہ اندازہ ہوجانا چاہیے کہ بہت بڑی تعداد میں طلبہ ان امتحانات کو ملتوی کرنے کا مطالبہ کررہے ہیں۔
اس سال ان دونوں مسابقتی امتحانات میں تقریباً 28 لاکھ طلبہ حصہ لیں گے۔ حالانکہ یہ امتحانات مارچ / اپریل میں ہونے والے تھے لیکن کورونا وائرس کی وبا اور اس کے نتیجے میں ملک گیر لاک ڈاون کی وجہ سے کئی مرتبہ التوا کے بعد امتحانات منعقد کرانے والے ادارے نیشنل ٹیسٹنگ ایجنسی نے جے ای ای کو یکم تا چھ ستمبر اور نیٹ امتحان 13ستمبر کو کرانے کا فیصلہ کرلیا ہے۔ وزارت تعلیم نے کہا ہے کہ اب ان تاریخوں میں کوئی تبدیلی نہیں کی جائے گی۔ سپریم کورٹ نے بھی امتحانات کو ملتوی کرنے کی تمام اپیلیں مسترد کردی ہیں۔
مختلف ریاستی حکومتیں، سیاسی جماعتیں، تعلیمی ادارے، سماجی تنظیمیں، طلبہ اور سرپرستوں کا کہنا ہے کہ ایسے وقت میں جب بھارت میں کورونا وائرس کی وبا تھمنے کا نام نہیں لے رہی ہے اور اب تک 36 لاکھ سے زائد افراد اس سے متاثر اور 64 ہزار کے قریب ہلاک ہوچکے ہیں، ان امتحانات کا انعقاد طلبہ کو 'موت کے منہ میں دھکیلنے‘ کے مترادف ہوگا۔ ماحولیات کے لیے سرگرم سویڈش کارکن گریٹا تھنبرگ نے بھی نیٹ اور جے ای ای امتحانات کو موخر کرنے کا مطالبہ کیا تھا۔
امتحانات ملتوی کرانے کے حامیوں کی دلیل ہے کہ اب تک ٹرین سروسز معمول پر نہیں آسکی ہیں، مختلف ریاستوں میں بسیں بھی نہیں چل رہی ہیں ایسے میں طلبہ اپنے اپنے امتحان مراکز تک کیسے پہنچیں گے؟ کیوں کہ بعض مقامات پر طلبہ کو امتحان مرکز تک پہنچنے کے لیے سو ڈیڑھ سو کلومیٹر کا سفر کرنا پڑتا ہے۔ امتحان دینے والے بچے ماسک پہننے کے باوجود اگر کووڈ 19سے متاثر ہوگئے تو کیا ہوگا؟
لیکن حکومت کا موقف ہے کہ امتحانات ملتوی کرنے سے بچوں کا ایک سال برباد ہوجائے گا۔ بعض طلبہ بھی کیریئر کے لیے اپنی زندگی کو داو پر لگانے کے لیے تیار ہیں۔
’من کی بات‘ وزیر اعظم مودی کا ماہانہ ریڈیو پروگرام ہے۔ جس کا آغاز اکتوبر 2014 میں ہوا تھا۔ اس پروگرام میں وہ ہر ماہ عوام کے ساتھ اپنے خیالات شیئر کرتے ہیں۔
30 اگست کے پروگرام میں انہوں نے بھارت میں بعض تہواروں، یوم اساتذہ، موبائل ایپ تیار کرنے، دیسی کھلونوں کو فروغ دینے اور دیسی نسل کے کتوں کی اہمیت پر بات کی۔ بالخصوص طلبہ کو امید تھی کہ وہ نیٹ اور جے ای ای کے بارے میں کچھ نہ کچھ ضرور بولیں گے لیکن طلبہ کو مایوسی ہوئی۔ بعض رہنماوں نے اس پر وزیر اعظم مودی کی نکتہ چینی بھی کی ہے۔