1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وزیر اعظم مودی کے 'دوست‘ عباس کون ہیں؟

جاوید اختر، نئی دہلی
20 جون 2022

بھارتی وزیر اعظم مودی نے اپنی والدہ کی سالگرہ کے موقع پر لکھے گئے ایک بلاگ میں عباس نامی ایک شخص کا ذکر کیا تھا۔ تب سے یہ نام سوشل میڈیا پر ٹرینڈ بن چکا ہے۔ مودی کے اس 'انکشاف‘ پر عوامی اور سیاسی سطح پر طنز بھی جاری ہے۔

https://p.dw.com/p/4Cw7N
Neu-Delhi | Narendra Modi und die Antiquitäten aus Australien
تصویر: https://pib.gov.in

وزیر اعظم نریندر مودی نے عباس نامی جس شخص کا گزشتہ دنوں ذکر کیا تھا، وہ نام اور مودی کا بیان دونوں عوامی دلچسپی اور بحث کا موضوع بن چکے ہیں۔ نریندر مودی کے 'دوست‘ عباس کا ذکر سوشل میڈیا سے آگے بڑھ کر اب سیاسی جلسوں اور تقریروں میں بھی ہونے لگا ہے۔ بھارتی میڈیا کے ایک حصے نے عباس کا پتہ لگا لینے کے دعوے بھی کیے ہیں۔ لیکن بیشتر افراد اب بھی اسے محض ایک کہانی ہی قرار دے رہے ہیں۔ وزیر اعظم مودی کے حوالے سے ایسی بہت سی کہانیاں مشہور ہیں۔ مثلاً یہ کہ جب وہ آٹھویں جماعت میں پڑھتے تھے تو انہوں نے مگرمچھوں سے لڑائی کی تھی۔ بچپن میں واڈنگر ریلوے اسٹیشن پر چائے بیچنے کی کہانی تو وہ خود ہی بڑے فخر کے ساتھ سنایا کرتے ہیں۔

بھارتی رکن پارلیمان اسدالدین اویسی نے اتوار کے روز ایک جلسہ عام سے خطاب کے دوران مودی کے دوست عباس کے انکشاف پر طنز کرتے ہوئے کہا، ''پی ایم مودی نے عباس کا ذکر کیاہے، آٹھ برس بعد انہیں اپنا دوست یاد آیا۔ بہت اچھا۔ پہلے آپ کا ایسا کوئی دوست تھا، نہیں معلوم۔ میں وزیر اعظم مودی سے اپیل کروں گا کہ اگر عباس صاحب ہیں، تو انہیں بلا لیجیے۔ یا کم سے کم مجھے ان کا پتہ بتا دیجیے۔ میں ان سے ملاقات کرنے چلا جاؤں گا۔‘‘

عباس صاحب کا معاملہ ہے کیا؟

دراصل وزیر اعظم نریندر مودی نے اپنی والدہ ہیرا بین کی 100ویں سالگرہ کے موقع پر 18جون کو ایک طویل بلاگ لکھا تھا، جس میں انہوں نے اپنے خاندان اور بچوں کے لیے اپنی والدہ کی قربانیوں اور ان کی رحم دلی کا تذکرہ بھی کیا تھا۔

وزیر اعظم مودی نے لکھا، ''ماں ہمیشہ دوسروں کو خوش دیکھ کر خوش رہا کرتی ہیں، گھر میں بھلے ہی جگہ کم ہو، لیکن ان کا دل بہت بڑا ہے۔ ہمارے گھر سے تھوڑی دور ایک گاؤں تھا، جس میں میرے والدکے نہایت قریبی دوست رہا کرتے تھے۔ ان کا بیٹا تھا عباس۔‘‘

نریندر مودی نے مزید لکھا، ''دوست کی بے وقت موت کے بعد والد صاحب عباس کو ہمارے گھر لے آئے۔ ایک طرح سے عباس ہمارے گھر پر ہی رہ کر پڑھا۔ ہم تمام بچوں کی طرح ماں عباس کی بھی بہت دیکھ بھال کرتی تھیں۔ عید پر ماں عباس کے لیے اس کی پسند کے پکوان بناتیں۔‘‘

دلچسپ تبصرے

وزیر اعظم مودی کے اس 'انکشاف‘ پر کانگریس، سماج وادی پارٹی اور متعدد دیگر سیاسی جماعتوں نے بھی تبصرے کیے ہیں۔ کانگریس کے رکن پارلیمان عمران پرتاپ گڑھی نے ٹویٹ کی، ''کہانی میں عباس آ گیا ہے، مستان بھی آ سکتا ہے۔‘‘ سماج وادی پارٹی کے رہنما انیس راجا نے لکھا، ''ابھی تک ملک کے عوام کیتلی اور ڈگری تلاش کر رہے تھے، آج سے عباس کو بھی تلاش کرنا پڑے گا۔‘‘

سوشل میڈیا پر بعض صارفین نے شدید نوعیت کے طنزیہ پیغامات بھی پوسٹ کیے۔ مثلاً ایک صارف نے گجرات کے مسلم مخالف فسادات کا حوالہ دیتے ہوئے لکھا، ''عباس غالباً 2002 کے بعد سے لاپتہ ہیں۔‘‘

عباس کی موجودگی کے دعوے

ایک بھارتی روزنامے نے مودی کے چھوٹے بھائی پنکج بھائی مودی کے حوالے سے بتایا کہ عباس کی عمر اب 64 برس ہو چکی ہے۔ وہ گجرات حکومت میں ایک سرکاری محکمے میں کلاس ٹو آفیسر کے عہدے سے سبکدوش ہوئے ہیں۔

دیپل تریویدی نامی ایک صحافی نے ایک شخص کی تصویر پوسٹ کر کے اس کے عباس ہونے کا دعویٰ کیا اور کہا کہ وہ آج کل اپنے بیٹے کے ساتھ آسٹریلیا کے شہر سڈنی میں مقیم ہیں۔

Indien Wahlen Gewinner Narendra Modi 16.05.2014
وزیر اعظم مودی اپنی والدہ کے ساتھتصویر: Reuters

کہانی میں موڑ

اسی دوران سوشل میڈیا پر بعض صارفین نے اخبارات میں شائع شدہ مودی کے اس خط کو بھی پوسٹ کر دیا، جو انہوں نے کورونا وائرس کی وبا کی وجہ سے اپنے والدین سے محروم ہوجانے والے بچوں کے نام لکھا تھا۔

مودی نے اس خط میں لکھا تھا کہ ان کی نانی بھی سن 1918ء اور 1920ء کے دوران بھارت میں پھیلنے والی ہسپانوی فلو کی وبا کے دوران چل بسی تھیں۔ اس وقت ان (مودی) کی والدہ اتنی چھوٹی تھیں کہ انہیں اپنی والدہ کی صورت بھی یاد نہیں، ''ان کی پوری زندگی اپنی والدہ کے آنچل، ان کی ممتا کے بغیر اور ماں کی کمی کے ساتھ ہی گزری۔‘‘

کئی لوگ یہ سوال بھی پوچھ رہے ہیں کہ اگر نریندر مودی کی نانی کی موت سن 1920میں ہوئی تھی، تو سن 2022ء میں ان کی والدہ ہیرا بین کی عمر 100 سال کیسے ہو گئی۔