1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ووٹ میری شناخت بنیں گے، پاکستانی ٹرانسجینڈر انتخابی امیدوار

10 جولائی 2018

پاکستان میں ایک ٹرانسجینڈر انتخابی امیدوار ندیم کشش کا کہنا ہے کہ اُن کی جدوجہد اقتدار کے حصول کے لیے نہیں بلکہ پاکستانی سماج میں اُن کی برادری کی قبولیت کے لیے ہے۔

https://p.dw.com/p/3183T
Pakistanische Transgender-Kandidatin Nadeem Kashish
ٹرانسجینڈر امیدوار ندیم کشش قومی اسمبلی کے حلقہ این اے تریپن سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیںتصویر: AFP/Getty Images/A. Qureshi

قومی اسمبلی کے حلقہ این اے تریپن سے الیکشن میں کھڑی ہونے والی ٹرانسجینڈر امیدوار ندیم کشش نے اپنے حلقے میں انتخابی مہم کے دوران رہائشیوں سے بات کرتے ہوئے کہا،’’میں پہلی بار قومی انتخابات میں حصہ لے رہی ہوں۔ مجھے ایک موقع دیجیے۔ آپ کا دیا ہوا ووٹ میری شناخت بنے گا۔‘‘

اسلام آباد کے حلقہ این اے تریپن سے سابق وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی اور  پاکستان تحریک انصاف کے اسد عمر بھی الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں۔ کشش جانتی ہیں کہ ایسے میں اُن کی جدوجہد بے سود ہے لیکن وہ پھر بھی ٹرانسجینڈر کمیونٹی کو سوسائٹی میں شناخت اور قبولیت دلوانے کے لیے زور و شور سے اپنی انتخابی مہم جاری رکھے ہوئے ہیں۔

ندیم کشش نے مہم میں بانٹنے کے لیے پمفلٹ بھی چھپوائے ہیں جن پر دو جملے درج ہیں۔ اوّل یہ کہ،’’ آئندہ نسلوں کے لیے پانی بچائیں۔‘‘ اور دوسرا یہ کہ،’’ مجھے ووٹ دیں۔‘‘

کشش کا کہنا ہے،’’ پچیس جولائی کو ہونے والے الیکشن میں جیت یا ہار سے مجھے کوئی مطلب نہیں ہے۔ ہمیں حکومت نے الیکشن کے عمل کا حصہ بننے کا ایک موقع دیا ہے اور ہم اسے پوری طرح استعمال کریں گے۔‘‘

Pakistanische Transgender-Kandidatin Nadeem Kashish
تصویر: AFP/Getty Images/A. Qureshi

پاکستان میں ’خواجہ سرا‘ کہلانے والی ٹرانسجینڈر برادری ابھی تک اپنے حقوق کی جنگ لڑ رہی ہے۔ تاہم سن 2009 میں پاکستان ایسے افراد کو تیسری جنس کے طور پر قانوناﹰ شناخت دینے والا پہلا ملک بن گیا تھا۔ تیسری جنس کو شناختی کارڈ بنانے کی اجازت بھی دی گئی اور ماضی میں مخنث افراد نے الیکشن میں حصہ بھی لیا۔

رواں ماہ کی پچیس تاریخ کو پاکستان میں ہونے والے عام انتخابات البتہ اس لحاظ سے تاریخی ثابت ہوں گے کہ اس مرتبہ حکام نے امیدواروں کے لیے جنس ظاہر کرنا لازمی معیار  قرار نہیں دیا۔

پاکستان الیکشن کمیشن کے ترجمان الطاف احمد کا کہنا ہے کہ اسی طرح ٹرانسجینڈر ووٹروں کو آزادی ہو گی کہ مردانہ یا زنانہ جس پولنگ بوتھ میں اپنا ووٹ کاسٹ کرنا چاہیں، کر سکتے ہیں۔

پاکستان میں ٹرانسجینڈر افراد کی تعداد کئی جائزوں کے مطابق پانچ لاکھ تک ہے تاہم تیسری جنس یا ٹرانسجینڈروں کے حقوق کے لیے سرگرم تنظیم ٹرانس ایکشن کا کہنا ہے کہ یہ تعداد دو ملین تک ہو سکتی ہے۔

رواں برس مئی کے مہینے میں خواجہ سراؤں کے حق میں ایک قانون پاس کیا گیا۔ اس قانون کے تحت انہیں اپنی جنس طے کرنے کا اختیار حاصل ہو گیا ہے۔ وہ خود کو مرد، عورت یا پھر دونوں جنسوں کا ملاپ کہلانے کا حق رکھتے ہیں اور وہ تمام سرکاری دستاویزات، جیسا کہ شناختی کارڈ، پاسپورٹ، ڈرائیونگ  لائسنس، میں اپنی جنس ظاہر کر سکتے ہیں۔ 

ص ح / ع ت / اے ایف پی