’وکی لیکس نے امریکی سفارتکاری کو نقصان پہنچایا ہے‘
30 نومبر 2010وکی لیکس نے یہ لاکھوں پیغامات عام کرکے ایسے وقت میں امریکی سفارتکاری کو بڑا نقصان پہنچایا ہے، جب صدر باراک اوباما خارجہ امور سے متعلق امریکی ساکھ بحال کرنے کی کوششوں میں مصروف ہیں۔ امریکی وزیر خارجہ کا کہنا ہے کہ یہ بین الاقوامی برادری پر اور ان اتحادیوں پر حملہ ہے، جو عالمی سلامتی اور معاشی خوشحالی کی حفاظت کو یقنی بنائے ہوئے ہیں۔
انہوں نے کہا، ’میں پر امید ہوں کہ صدر اوباما نے جو شراکت داریاں قائم ہیں، وہ اس چیلنج کا مقابلہ کریں گی۔’ وائٹ ہاؤس نے وفاقی اداروں کو حکم دیا ہے کہ وہ حساس دستاویزات کی سلامتی کو ممکن بنائے۔ اس کے ساتھ ہی سفارتی کیبلز کے عام ہونے کے معاملے کی تحقیقات کا بھی حکم جاری کیا گیا ہے۔
سفارتی امور کے ماہرین کا کہنا ہے کہ دنیا بھر میں امریکی سفارتکاروں پر اعتماد میں کمی آسکتی ہے۔ ماسکو کے لئے سابق امریکی سفیر جیمز کولنز کے بقول اب کوئی بھی امریکی سفارتکاروں کو اہم راز دینے سے اجتناب کرے گا۔ ان کے بقول خارجہ پالیسی جن بنیادوں پر تیار کی جاتی ہے، اس کو شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔
اس ضمن میں بالخصوص، سہ فریقی یا کثیرالجماعتی مذاکرات کا ذکر کیا گیا ہے کہ ایسے معاملات میں کوئی بھی فریق امریکی حکام پر بھروسہ کرنے سے ہچکچا سکتا ہے۔ کولنز نے اس تناظر میں ایران کے جوہری پروگرام، شمالی کوریا کے تنازعے، یمن میں دہشت گردی کے خلاف جنگ اور افغانستان میں استحکام کی کوششوں کی مثالیں دیں۔ واضح رہے کہ ایران کے معاملے پر امریکہ کے ساتھ ساتھ روس، چین، برطانیہ، فرانس اور جرمنی کام کر رہے ہیں۔ شمالی کوریا کے تنازعے کے فریقین کے طور پر شمالی اور جنوبی کوریا کے علاوہ روس، چین اور جاپان کا نام لیا جاتا ہے جبکہ افغانستان کے معاملے میں نیٹو ممالک کے ساتھ ساتھ افغانستان کے پڑوسی ممالک شامل ہیں۔
عام کی گئی سفارتی کیبلز میں امریکی سفارتکاروں نے دعویٰ کیا ہے کہ چین جنوبی اور شمالی کوریا کے دوبارہ ایک ہونے کا حامی ہے اور اس کا شمالی کوریا پر اتنا اثر نہیں جتنا دنیا سمجھتی ہے۔ ایران کے معاملے کے متعلق رچرڈ ہاس، جو امریکی دفتر خارجہ میں پالیسی سازی کے سابق ڈائریکٹر ہیں، کہتے ہیں، ’یہ کوئی نئی بات نہیں کہ افغانستان میں بدعنوانی عام ہے اور عرب رہنما ایران کے جوہری پروگرام پر اسرائیل سے زیادہ تشویش رکھتے ہیں، تاہم ان باتوں کو یوں عام کرنے کے دُور رس نقصانات بہت ہوں گے۔’
پاکستان کے لئے سابق امریکی سفیر وینڈی چیمبرلن کا مؤقف بھی زیادہ مختلف نہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ ان پیغامات میں کوئی بھی ایسا نہیں، جو کسی خاص امریکی پالیسی کو براہ راست متاثر کرے۔’
انہوں نے کہا، ’میرا نہیں خیال کہ کوئی نئی بات سامنے آئی ہے، اصل میں جو نقصان ہوا ہے وہ یہ ہے کہ سفارتکاری کے عمل کو دھچکہ لگا ہے، یہ سارا معاملہ ہی اعتماد کا ہوتا ہے۔‘
رپورٹ: شادی خان سیف
ادارت: ندیم گِل