وکی لیکس پارٹی اور امیدواروں کا اعلان
26 جولائی 201341 سالہ جولیان اسانج آسٹریلیا کے شہری ہیں۔ اس وقت لندن میں ایکواڈور کے سفارتخانے میں پناہ لیے ہوئے اسانج نے آسٹریلوی ریاست وکٹوریا کے دارالحکومت میلبورن میں بذریعہ اسکائپ خطاب کرتے ہوئے اپنی پارٹی کے قیام کا اعلان کیا۔ اسانج نے لندن سے سویڈن بدر کیے جانے سے بچنے کے لیے ایکواڈور کے سفارتخانے میں سیاسی پناہ لی ہوئی ہے۔ سویڈن میں ان کے خلاف جنسی زیادتی کے الزامات کے تحت مقدمات قائم ہیں۔
اسانج نے ریاست وکٹوریا سے انتخابات میں حصہ لینے کے لیے تین امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا جن میں سے ایک وہ خود ہیں۔ یہ انتخابات رواں برس دسمبر سے قبل منعقد ہونا ہیں۔ خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق آسٹریلین الیکشن کمیشن کے پاس وکی لیکس پارٹی کو رواں ماہ ہی رجسٹر کرایا گیا ہے۔ اسانج کی طرف سے وکٹوریا کے علاوہ نیو ساؤتھ ویلز اور ویسٹرن آسٹریلیا ریاستوں میں بھی اپنی پارٹی کے امیدواروں کے ناموں کا اعلان کیا گیا۔
اسانج نے اعلان کیا کہ ان کی پارٹی کے سات امیدوار ملکی دارالحکومت کینبرا کی سینیٹ کے لیے انتخابات میں حصہ لیں گے۔ میلبورن کے مضافات کی ایک لائبریری میں اسکائپ کے ذریعے خطاب میں اسانج کا کہنا تھا کہ آسٹریلیا میں جمہوریت گزشتہ 30 برس کے دوران تنزلی کا شکار ہوئی ہے: ’’کینبرا کو اجالے کا مقام ہونا چاہیے، نہ کہ اندھیرے کا‘‘۔
جولیان اسانج کو لندن میں قائم ایکواڈور کی ایمبیسی میں پناہ لیے ہوئے ایک برس سے زائد عرصہ گزر چکا ہے۔ اسانج جنسی زیادتی کے الزامات کے تحت تفتیش سے بچنے کے لیے سویڈن جانے کو تیار نہیں ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ اس اسکینڈے نیوین ملک ان کو بھیجنے کی کوشش دراصل پہلا مرحلہ ہے جو حتمی طور پر ان کو امریکا کے حوالے کیے جانے پر منتج ہوگا۔
امریکا میں جولیان اسانج کے خلاف کافی غم وغصہ پایا جاتا ہے کیونکہ انہوں نے امریکی اسٹیٹ ڈیپارٹمنٹ کو بھیجے جانے والے ڈھائی لاکھ کے قریب خفیہ سفارتی مراسلوں کو اپنی ویب سائٹ وکی لیکس پر جاری کر دیا تھا۔ امریکی فوج کا ایک اہلکار بریڈلی میننگ ان دستاویزات کی وکی لیکس کو فراہمی کا اعتراف کر چکا ہے۔
اگر جولیان اسانج آسٹریلوی انتخابات میں کامیابی حاصل کر لیتے ہیں تو انہیں سینیٹ میں اپنی نشست سنبھالنے کے لیے یکم جولائی 2014ء کو آسٹریلیا پہنچنا ہوگا۔ وکی لیکس پارٹی کی قومی کونسل کی رکن سام کاسٹرو کے مطابق اگر اسانج کامیاب ہوتے ہیں لیکن آسٹریلیا واپس نہیں پہنچ سکے تو ایسی صورت میں پارٹی ان کی جگہ کسی دوسرے امیدوار کو منتخب کرے گی۔
تاہم ان کا کہنا تھا کہ ایسی صورت میں یہ آسٹریلوی حکومت کی ذمہ داری ہوگی کہ وہ اپنے ایک منتخب شدہ رکن پارلیمان کی وطن واپسی کو یقینی بنائے۔ تاہم ان کا کہنا تھا کہ اگلی حکومت بنانے میں بھلے موجودہ حکمران جماعت کامیاب ہوتی ہے یا اپوزیشن پارٹی لیکن کیا وہ امریکی حکومت کی خواہشات کے برخلاف کچھ کرتی ہے یا نہیں یہ وقت ہی ثابت کرے گا۔