وکی لیکس: ڈھائی لاکھ خفیہ سفارتی پیغامات ریلیز
29 نومبر 2010وکی لیکس کی جانب سے مختلف امریکی سفارت خانوں کے ارسال کردہ انتہائی خفیہ پیغامات کے عام ہونے سے یہ مراد لی جا رہی ہے کہ دنیا،مختلف اہم معاملات کے بارے میں اندرون خانہ امریکی حکام کی رائے اور خدشات سے آگاہ ہو سکے۔ ان میں بعض عرب لیڈروں کے پیغامات بھی ہیں جن میں خاص طور پرسعودی عرب کے شاہ عبداللہ کا وہ پیغام بھی شامل ہے جس میں انہوں نے امریکہ کو مشورہ دیا تھا کہ وہ ایرانی جوہری پروگرام کے خاتمے کے لئے ایران پر حملہ کرے۔ اسی طرح پاکستانی جوہری پروگرام کے بارے میں بھی امریکی خدشات پر مبنی کیبل میسج موجود ہے۔ ان سفارتی پیغامات میں چین حکومت بابت بھی اہم مواد جاری ہوا ہے۔ اسی طرح جرمن چانسلر میرکل اور وزیر خارجہ ویسٹر ویلےکے بارے میں بھی رائے کو عام کیا گیا ہے۔
جو خصوصی اور خفیہ پیغامات وکی لیکس کی جانب سے عام ہوئے ہیں ان میں ایران کی جانب سے شمالی کوریا کے راکٹوں کو بطور طویل فاصلے کے میزائل استعمال کرنے کے بارے میں بھی اطلاع شامل ہے۔ اسی طرح ان میں افغان حکومت میں پائی جانے والی کرپشن کے بارے میں بھی تشویش کا جو اظہار کیا گیا تھا وہ بھی سامنے آگیا ہے۔ اس خفیہ پیغام میں بتایا گیا کہ ایک افغان سینئر اہلکار پچاس ملین ڈالر کی نقد رقم لے کر غیر ملکی دورے پر گیا تھا۔
یورپی ملک سلووینیہ کے اعلیٰ حکام کو قائل کرنے کی کوششیں بھی سامنے آئی ہیں کہ اگر وہ گوانتانامو بے جیل کے ایک قیدی کو قبول کرنے کے حوالے سے رضامندی ظاہر کردیں تو ایسا کرنے پر ان کی لیڈر شپ کے ساتھ صدر باراک اوباما کی ملاقات کروائی جا سکتی ہے۔
ان خفیہ پیغامات میں امریکی حکام کی وہ ہدایت بھی سامنے آئی ہے جس کے مطابق اقوام متحدہ کی لیڈر شپ کی نقل و حرکت پر خفیہ نگاہ رکھنے کا کہا گیا تھا۔ اسی طرح روسی صدر ولادی میر پوتین اور اطالوی وزیر اعظم سلویو برلسکونی کے گہرے تعلقات کا پیغام بھی سامنے لایا گیا ہے۔ اسی طرح ایک میسج میں ایسی رائے لکھی ہوئی تھی کہ روسی حکومت کے امکاناً منظم جرائم میں ملی بھگت ہو سکتی ہے۔ امریکہ کے مضبوط اتحادی برطانیہ کے سیاستدانوں پر تنقید بھی لاکھوں پیغامات میں شامل ہے اور ان سیاستدانوں میں موجودہ وزیر اعظم ڈیوڈ کیمرون بھی شامل ہیں۔ ان امریکی کوششوں کا پیغام بھی سامنے آ یا ہے جس کے تحت شام کو کسی طور روکنے کا مشورہ دیا گیا تھا تا کہ وہ لبنانی انتہاپسند تنظیم حزب اللہ کو ہتھیاروں کی فراہمی نہ کر سکے۔
مبصرین کا خیال ہے کہ ان پیغامات کے عام ہونے سے امریکی حکومت کو خاصی خفت کا سامنا یقینی طور پر ہو گا۔ ان مندرجات سے عرب دنیا میں بھی پریشانی کی لہر پیدا ہوگی۔ امریکی صدر کی رہائش گاہ کے ترجمان رابرٹ گبز نے اس عمل کو عاقبت نااندیشی اور بے پروائی سے تعبیر کیا ہے۔
رپورٹ: عابد حسین
ادارت: شادی خان سیف