1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

وہیل مچھلی سے انسانوں کی سی آوازیں، امریکی ماہرین کا دعویٰ

25 اکتوبر 2012

امریکا میں وہیل اور ڈولفن مچھلیوں کے ایک ٹینک میں سے آنے والی انسانوں کی سی آوازوں پر حیران سمندری حیات پر تحقیق کرنے والے ماہرین نے نتیجہ اخذ کیا ہے کہ یہ آوازیں ایک وہیل مچھلی نکال رہی تھی۔

https://p.dw.com/p/16WC5
تصویر: picture alliance/WILDLIFE

واشنگٹن سے ملنے والی رپورٹوں میں بتایا گیا ہے کہ اس بات نے کافی عرصے تک آبی حیات پر ریسرچ کرنے والے امریکی سائنسدانوں کو لاجواب رکھا۔ لیکن اب یہ ماہرین اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ انسانی آواز سے ملتی جلتی یہ آوازیں ایک وہیل مچھلی نکال رہی تھی۔

Zwergwal oder Minkwal
ایسی ابتدائی رپورٹیں پہلے بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ وہیل مچھلی انسانوں جیسی آوازیں نکال سکتی ہےتصویر: AP/Greenpeace

ایسی ابتدائی رپورٹیں پہلے بھی سامنے آتی رہی ہیں کہ وہیل مچھلی انسانوں جیسی آوازیں نکال سکتی ہے۔ لیکن ایسا پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ امریکی ریاست کیلی فورنیا میں سان ڈیئگو (San Diego) کے مقام پر سائنسدانوں نے وہیل مچھلی کی طرف سے نکالی گئی ان آوازوں کو باقاعدہ طور پر ریکارڈ کیا۔

سمندروں میں پائے جانے والے ممالیہ یا دودھ پلانے والے جانوروں سے متعلق امریکا کی نیشنل میرین میمل فاؤنڈیشن (NMMF) کے ایک ماہر سَیم رِج وے کے مطابق جب ان آڈیو ریکارڈنگز کا صوتی تجزیہ کیا گیا تو ماہرین کو بڑی حیرانی ہوئی۔ انہوں نے دیکھا کہ وہیل مچھلی کی آواز میں اُسی طرح کا تسلسل یا rhythm پایا جاتا ہے جیسا کہ انسانی گفتگو کے دوران سنائی دینے والی آوازوں میں ہوتا ہے۔

Buckelwal
ان ماہرین کا کہنا ہے کہ وہیل مچھلی اپنے ناک کے رستے یا nasal tract کی مدد سے مختلف آوازیں پیدا کرتی ہےتصویر: AP

ان ماہرین کا کہنا ہے کہ وہیل مچھلی اپنے ناک کے رستے یا nasal tract کی مدد سے مختلف آوازیں پیدا کرتی ہے۔ اس کے برعکس انسان ایسی آوازیں پیدا کرنے کے لیے اپنے گلے میں larynx استعمال کرتے ہیں۔ اس لیے کیلی فورنیا میں ایک بہت بڑے فش ٹینک میں جس وہیل مچھلی نے انسانوں کی سی آوازیں پیدا کیں، اسے اس مقصد کے لیے اپنے پٹھوں کو ایک مخصوص انداز میں استعمال کرنا پڑا تھا۔

Sam Ridgway کے مطابق یہ کوششیں ظاہر کرتی ہیں کہ آواز پیدا کرنے والے جاندار میں رابطے کی خواہش پائی جاتی ہے۔ یہ امریکی ماہر اِس موضوع پر اُس رپورٹ کے مرکزی مصنف بھی ہیں، جو Current Biology نامی ریسرچ میگزین میں شائع ہوئی ہے۔ رِج وے کے بقول وہیل مچھلی کی جو آوازیں انہوں نے اور ان کے ساتھی ماہرین نے سنیں، وہ واضح طور پر اشارہ کرتی ہیں کہ سفید وہیل مچھلی نے بولنا سیکھنے کی کوشش کی۔

Walfang Walfänger Japan Schiff Landung Wal
سفید وہیل مچھلی سے آنے والی ان آوازوں کا پتہ تب چلا تھا جب ایک مرتبہ اس ٹینک میں ایک غوطہ خور نے کچھ آوازیں سنی تھیں

جس وہیل مچھلی کی آڈیو ریکارڈنگز کو ماہرین نے سنا، اس کا نام نَوک (NOC) تھا اور وہ پانچ سال قبل مر گئی تھی۔ سَیم رِج وے کہتے ہیں کہ انہوں نے اور اُن کے ساتھیوں نے وہیل اور ڈولفن مچھلیو‌ں کے ٹینک کے قریب سے آوازیں سننا 1984 میں شروع کیا تھا۔

ان کا کہنا ہے کہ یہ آوازیں ایسی تھیں جیسے دو انسان دور کھڑے ہو کر باتیں کر رہے ہوں اور ان کی گفتگو سنی تو جا سکے لیکن وہ سمجھ میں نہ آئے۔ سفید وہیل مچھلی سے آنے والی ان آوازوں کا پتہ تب چلا تھا جب ایک مرتبہ اس ٹینک میں ایک غوطہ خور نے کچھ آوازیں سنی تھیں۔ تب وہ غوطہ خور اس لیے پانی سے باہر آ گیا تھا کہ اس نے سمجھا تھا کہ اس کے ساتھی اسے واپس بلا رہے تھے۔

NOC کے بارے میں اہم بات یہ ہے کہ یہ مچھلی دیگر کئی سفید وہیل مچھلیوں اور ڈولفنز کے ساتھ ایک ٹینک میں رہتی تھی اور اس کے ارد گرد کے ماحول میں اکثر کئی انسان بھی موجود ہوتے تھے۔ یہ مچھلی اپنے جسمانی اور جنسی طور پر بالغ ہونے سے پہلے قریب چار سال تک انسانوں کی طرح کی آوازیں نکالتی رہی تھی۔

(ij / mm (AFP