وہ شخص، جو دس لاکھ ایغور مسلمانوں کی نظر بندی کے پیچھے ہے
30 نومبر 2019چین کی منظر عام پر آنے والی خفیہ دستاویزات کے مطابق عہدیدار ژو ہائیلون نے ایغور مسلمانوں کے خلاف منصوبہ بندی، حراستی مراکز اور شروع ہونے والی مہم میں فیصلہ کن کردار ادا کیا تھا۔ نیوز ایجنسی اے پی کی رپورٹوں کے مطابق منصوبہ سازی کی دستاویزات پر ژو ہائیلون کے دستخط ملتے ہیں اور اس کے بعد اس منصوبے کی منظوری سینکیانگ کی طاقتور لیگل افئیرز کمیشن نے دی۔
نیوز ایجنسی اے پی کے مطابق اکسٹھ سالہ ژو سے متعدد مرتبہ رابطہ کرنے کی کوشش کی گئی لیکن انہوں نے کوئی بھی تبصرہ کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ژو ہیلون سن 1958 میں چینی کے ساحلی علاقے جیانگ سو میں پیدا ہوئے تھے۔ چین کے ہنگامہ خیز ثقافتی انقلاب کے دوران انہیں سنکیانگ کے ایک وسطی علاقے میں بھیج دیا گیا تھا، جہاں وہ اب تک رہائش پذیر ہیں۔
اسی کی دہائی میں ژو ہیلون سنکیانگ کی بیوروکریسی میں شامل ہوئے اور نوے کی دہائی میں وہ ایغوری زبان پر عبور حاصل کر چکے تھے۔ بتایا جاتا ہے کہ وہ مختلف میٹینگز کے دوران خود اپنے مترجم کی تصحیح کر دیتے ہیں۔
ترکی میں جلاوطن ایک ایغور مسلمان کا کہنا تھا، ''اگر آپ انہیں دیکھیں نہیں صرف سنیں تو کوئی بھی اندازہ نہیں کر سکتا کہ وہ ایغور نہیں ہے۔‘‘ نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر اس ایغور بزنس مین کا کہنا تھا، ''میرے دوست اس سے بہت متاثر تھے۔ ہم سمجھتے تھے کہ ہم اس چینی کے ساتھ مل کر کام کر سکتے ہیں کیوں کہ ژو بہت صلاحیتوں کا حامل ہے۔‘‘
لیکن کئی سالہ کریک ڈاؤن کے بعد اس ایغور تاجر کی رائے تبدیل ہو چکی ہے، ''وہ ایک مکار لومڑی ہے۔ واقعی چالاک قسم کی، جو دماغوں سے کھیلنا جانتی ہے۔ سنکیانگ کا کنٹرول حاصل کرنے کے لیے وہ چینی حکومت کا ایک مرکزی کردار تھا۔‘‘
ماہر لسانیات اور ایغور مسلمان ایوب کہتے ہیں کہ ان کی ژو ہیلون سے پہلی ملاقات سن 1998 میں ہوئی تھی۔ اس وقت ہی وہ کہا کرتا تھے کہ ایغوروں کے خلاف چھاپے رات کے تین بجے مارے جانے چاہئیں اور ہر ایغور کو یہ گانا چاہیے کہ ''ہیلون آ رہا ہے۔‘‘ اس وقت وہ کسانوں کو فوجیوں کی طرح حکم دیتا تھا، ''ہم تمام اس کے فوجی تھے۔‘‘ ایوب مزید بتاتے ہیں، ''ایک مرتبہ اس نے تلاوت فوری طور پر بند کرنے کا کہا اور کہا یہ بالکل فضول ہے۔ اسی طرح ژو نے خدا کے بارے میں ایسے الفاظ کہے، جو میں بیان نہیں کر سکتا۔‘‘
ایوب بتاتے ہیں کہ ژو ان کی تہذیب کا موازنہ افغان کلچر سے کرتے تھے اور اسے جدید بنانے کا کہتے تھے۔ ایوب بتاتے ہیں، '' وہ خود کو نجات دہندہ سمجھتا تھا۔ وہ سمجھتا تھا کہ وہ اس علاقے میں جدت لائے گا، ایغوروں کے لیے ایک نئی آئیڈیالوجی۔‘‘
سن 2016 میں بیجنگ حکومت نے سنکیانگ کے لیے ایک نیا لیڈر منتخب کیا، جس کا نام چن کوانگواؤ تھا۔ اس نے آتے ہی سب سے پہلے ان افسران سے تعلقات قائم کیے، جو ایغوروں کے خلاف سخت موقف رکھتے تھے اور ژو ہیلون اس کا دایاں ہاتھ ثابت ہوا۔ ژو نے نگرانی کے نظام کے لیے پہلے ہی ہوم ورک کر رکھا تھا۔ نگرانی کا ویسا ہی نیا نظام لایا گیا، جیسا تبت میں قائم کیا گیا تھا۔ یہ نظام ہدف کی گرفتاری کی خودکار طریقے سے نشاندہی کر دیتا تھا۔
چن کوانگواؤ کے آنے کے بعد ایغور مسلمان ہزاروں کی تعداد میں غائب ہونا شروع ہوئے۔ ساٹھ سال کی عمر میں ژو ہیلون گزشتہ برس ریٹائرڈ ہو گئے تھے لیکن ان کی پالیسیاں اب بھی جاری ہیں۔
ا ا / ع ح ( اے پی)