ویزا فری انٹری: ترکی نے اہم یورپی مطالبہ مان لیا
4 مئی 2016ترکی کی جانب سے اس قانونی بل کی منظوری کے بعد اس کے شہریوں کی یورپی یونین کی شینگن ریاستوں میں بغیر ویزا سفر کی سہولت کی راہ ہم وار ہو گئی ہے۔ خبر رساں ادارے روئٹرز کے مطابق اس سہولت کے اعلان کے لیے یورپی یونین کی جانب سے انقرہ حکومت سے کیا گیا یہ اہم ترین مطالبہ تھا۔
28 رکنی یورپی یونین نے رواں برس مارچ میں ترکی کے ساتھ مہاجرین کے بحران پر قابو پانے کے لیے ایک اہم ڈیل کی منظوری دی تھی، جس کے تحت ترکی کو اپنے ہاں سے بحیرہء ایجیئن عبور کر کے یونان پہنچنے والے مہاجرین کو روکنا تھا، جب کے اس کے بدلے یورپی یونین نے وعدہ کیا تھا کہ ترک باشندوں کے لیے یورپی یونین کی شینگن ریاستوں کے سفر کے لیے ویزا کی شرط ختم کر دی جائے گی۔
گزشتہ برس یونان اور اٹلی کے راستے یورپی یونین پہنچنے والے مہاجرین کی تعداد ایک ملین سے زائد رہی تھی، جن میں سے زیادہ تر مشرق وسطیٰ کے ممالک سے تعلق رکھنے والے وہ مہاجرین تھے، جو ترکی کے راستے بحیرہء ایجیئن عبور کر کے یونان پہنچے تھے اور پھر جنہوں نے بلقان کے خطے سے ہوتے ہوئے مغربی اور شمالی یورپ کا رخ کیا تھا۔
قبل ازیں پیر کے روز ترک کابینہ نے 28 رکنی یورپی یونین کی تمام ریاستوں کے لیے ویزا فری انٹری کا اعلان کیا تھا۔ یورپی یونین کی تمام رکن ریاستوں کے باشندوں کو یہ سہولت اس وقت حاصل ہو جائے گی، جب یورپی یونین ترک باشندوں کے لیے ویزا کی پابندی ختم کرے گی۔ یورپی یونین کی جانب سے ترک باشندوں کی ویزا فری انٹری کے لیے انقرہ حکومت کو 72 نکاتی مطالباتی فہرست پیش کی گئی تھی، جس میں سے اہم ترین نکتہ یہ تھا کہ ترک سکیورٹی فورسز کی سرگرمیوں اور تنظیم پر نگاہ رکھنے کے لیے ایک مبصر پینل قائم کیا جائے، جو یہ دیکھے کہ کیا قانون نافذ کرنے والے اداروں نے کوئی ایسا اقدام تو نہیں کیا، جو غیر قانونی ہو یا جس سے انسانی حقوق پر کوئی حرف آتا ہو۔ اس کے علاوہ ایسی کسی غیر قانونی سرگرمی میں ملوث اہلکاروں کو انصاف کے کٹہرے میں لانے کے عمل کو یقینی بنانے کا کہنا گیا تھا۔
ممکنہ طور پر آج بدھ کے روز یورپی کمیشن ترک شہریوں کے لیے ویزا فری انٹری سے متعلق اپنی تجاویز کا اعلان کر سکتا ہے، جب کہ یورپی پارلیمان اس سلسلے میں کمیشن کی تجاویز کی حتمی منظوری جون کے آخر تک دے سکتی ہے۔
یہ بات اہم ہے کہ 79 ملین کی مسلم اکثریتی آبادی والے ملک ترکی کے لیے یورپی ریاستوں کی ویزا فری انٹری سے متعلق اب بھی یورپی یونین کی رکن ریاستوں میں خاصے اختلافات پائے جاتے ہیں، تاہم مہاجرین کے بحران سے نمٹنے میں انقرہ حکومت کی ناگزیر مدد کے لیے یورپی یونین اپنے اس وعدے پر عمل درآمد کی کوششوں میں ہے، جو اس نے ترکی کے ساتھ معاہدے میں کیا تھا۔