وینس میں دنیا کا سب سے پرانا فلمی میلہ جاری
10 ستمبر 2009شمالی اٹلی کے خوبصورت شہر وینس میں چھیاسٹھ ویں بین الاقوامی فلمی میلے کا آغاز دو ستمبر کو بڑے بجٹ کی اطالوی فلم ’’باریا‘‘ کے ساتھ ہوا تھا۔ اِس سے پہلے اٹلی میں کسی بھی فلم پر پچیس ملین یورو خرچ نہیں کئے گئے تھے۔ بیس ویں صدی کے سسلی کے بارے میں بننے والی اِس جذباتی فلم میں فاشزم، جنگ، کمیونزم اور مافیا کو موضوع بنایا گیا ہے۔ گذشتہ تقریباً بیس برسوں میں یہ پہلا موقع تھا کہ میزبان ملک کی کسی فلم سے اِس میلے کا آغاز ہوا۔
اِس اطالوی شہر میں پہلی مرتبہ اِس میلے کا انعقاد سن 1932ء میں کیا گیا تھا۔ میلے کو بین الاقوامی میلوں میں ایک ممتاز مقام حاصل ہے۔ یہاں بڑے بڑے ہدایتکاروں کی اہم فلموں کے پریمیئر شو منعقد ہوتے ہیں اور دنیا بھر کے ہدایتکار وینس میلے میں شرکت کو اپنے لئے ایک اعزاز سمجھتے ہیں۔ یہاں اُن خطوں کی فلمیں بھی دیکھنے کو ملتی ہیں، جو عام طور پر بڑے میلوں میں کم ہی شرکت کرتے ہیں۔ چنانچہ اِس میلے میں سری لنکا، لبنان اور مصر کی فلمیں بھی شامل ہیں۔
سن 2001ء میں اِسی وینس میلے میں ہدایتکارہ میرا نائر کی گولڈن لائن جیتنے والی فلم ’’مون سون ویڈنگ‘‘ کی نمائش ہوئی تھی۔ معروف جرمن فلمی نقاد پے ٹر کلاؤس گذشتہ دو عشروں سے ہر سال یہ میلہ دیکھنے کے لئے جاتے ہیں۔ وہ بتاتے ہیں کہ اِس بھارتی فلم کی وینس میں نمائش کے ساتھ ہی ہندی فلموں کی نئی دنیا دریافت ہوئی تھی:”مون سون ویڈنگ‘‘ کی نمائش وینس میں ہوئی اور یوں بالی وڈ کہلانے والی فلمی صنعت کا چرچا پوری دنیا میں ہوا۔ اِس سے پہلے تک ہم یورپ میں بھی اور امریکہ میں بھی ہندوستانی سینما کو بڑی حد تک نظر انداز کر رہے تھے۔ اجنبی دنیائیں دریافت کرنا لیکن اُنہیں اجنبی کے طور پر نہ دیکھنا، یہ وینس میلے کا امتیازی وصف ہے۔ فلمیں خواہ ایشیا سے ہوں یا لاطینی امریکہ سے، وینس میں اُنہیں فلم کے فن کو فروغ دینے کے سلسلے میں ایک اہم خدمت کے طور پر لیا جاتا ہے۔“
اِس بار مقابلے کی چوبیس فلموں میں سے ایک چوتھائی امریکہ سے ہیں لیکن جرمنی کی شرکت بھی اِس بار بھرپور ہے۔ مقابلے ہی کے شعبے میں ترک نژاد جرمن ہدایتکار فاتی آکین کی فلم ”سول کچن“ دکھائی جا رہی ہے۔ اِس کثیرالثقافتی فلم میں ایک ایسے ریستوراں کو موضوع بنایا گیا ہے، جو نقصان میں جا رہا ہے۔
مقابلے میں جرمن فلم کے طور پر ہی شامل ہے وہ فلم بھی، جسے ایران میں پیدا ہونے والی اور آج کل امریکہ میں آباد ویڈیو فنکارہ اور فوٹوگرافر شیریں نَشاط نے تیار کیا ہے۔ ’’ویمن وِد آؤٹ مَین‘‘ نامی اِس فلم میں 1953ء میں ایرانی حکومت کا تختہ الٹے جانے کے بعد وہاں مختلف خواتین کے حالات کو موضوع بنایا گیا ہے۔
ممتاز جرمن ہدایتکار وَیرنر ہیرسوگ اپنی امریکہ میں تیار کردہ فلم ”بیڈ لیفٹیننٹ‘‘کے ساتھ اِس میلے میں شریک ہیں۔ اِس فلم میں ممتاز امریکی اداکار نکولس کیج نے ایک بدعنوان پولیس افسر کا کردار نبھایا ہے۔ اِس بار کے میلے میں مقابلے کے شعبے میں ایک سرپرائز فلم کا غیر متوقع اعلان بھی کیا گیا تھا۔ یہ اعزاز بھی ویرنر ہیرسوگ ہی کی امریکی جرمن پروڈکشن ’’مائی سن،مائی سن، واٹ ہَیو یُو ڈَن؟‘‘ کے حصے میں آیا اور یوں وہ واحد ہدایتکار ہیں، جن کی اکٹھی دو فلمیں میلے میں دکھائی جا رہی ہیں۔
جرمن ہدایتکار ہیرسوگ نے کہا کہ اِس اعزاز پر اُنہیں بے حد فخر ہے:’’یہ پہلا موقع ہے کہ مَیں مقابلے کے شعبے میں شامل ہوں۔ اِس سے پہلے وینس میلے کے اِس شعبے کے لئے کبھی بھی میری فلم قبول نہیں کی گئی، چنانچہ مجھے بے حد فخر ہے۔‘‘
ہمیشہ کی طرح اِس بار بھی خاص طور پر ہالی وُڈ کے نامور فلمی ستارے وینس میلے میں شریک ہیں۔ اپنی دستاویزی فلموں کے لئے شہرت رکھنے والے ممتاز امریکی ہدایتکار مائیکل مُور اپنی نئی فلم ’’کیپیٹل ازم، اے لو سٹوری‘‘ کے ساتھ وینس کے فلمی میلے میں شریک ہیں۔ اِس میں اُنہوں نے اِن دنوں بحران کی لپیٹ میں آئے ہوئے سرمایہ دارانہ نظام کی دھجیاں بکھیری ہیں۔
وینس میلے میں فلم کے لئے عمر بھر کی خدمات کا ایوارڈ بچوں کے لئے نیمو جیسی یادگار کارٹون فلم بنانے والے فلمساز اور ہدایتکار جَون لیسٹر اور اُن کے اسٹوڈیو Pixar کے حصے میں آیا ہے۔ یہ پہلا موقع ہے کہ ایک فلمساز کو نہیں بلکہ پورے اسٹوڈیو کو ایوارڈ سے نوازا گیا ہے۔
ممتاز امریکی ہدایتکار اولیور اسٹون کی نئی فلم ’’ساؤتھ آف بارڈر‘‘ کی نمائش ہوئی تو وینس میلے میں اُس شو میں شریک ہونے کے لئے وینزویلا کے صدر اوگو شاویز بھی موجود تھے۔ اِس فلم میں اسٹون کا موقف ہے کہ امریکی حکومت اور میڈیا اوگو شاویز اور جنوبی امریکہ کے بائیں بازو کے دیگر رہنماؤں کو جان بوجھ کر ہدفِ تنقید بناتا ہے اور یہ کہ یہ رہنما بجا طور پر واشنگٹن کے خلاف آواز بلند کر رہے ہیں۔
امریکی ہدایتکار اسٹیون سوڈربرگ کی مقابلے سے ہَٹ کر دکھائی جانے والی فلم The Informant کو وینس میں بے حد سراہا جا رہا ہے۔ وائٹ کالر کرائم کے موضوع پر بنی اِس فلم کی نمائش کے موقع پر اِس کے ہیرو مَیٹ ڈَیمن بھی موجود تھے۔ یہ کردار ادا کرنے کے لئے ڈَیمن کو اپنا وزن تیس پاؤنڈ بڑھانا پڑا۔
رپورٹ: امجد علی
ادارت: کشور مصطفٰی