ٹرمپ اپنے پہلے غیر ملکی دورے پر سعودی عرب پہنچ گئے
20 مئی 2017سعودی دارالحکومت ریاض سے ملنے والی مختلف نیوز ایجنسیوں کی رپورٹوں کے مطابق امریکی صدر کے طور پر ٹرمپ کا یہ پہلا غیر ملکی اور ایک بین الاقوامی دورہ ہے، جس کے آغاز پر وہ آج ہفتے کی صبح واشنگٹن سے سعودی دارالحکومت ریاض پہنچے۔
ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب، ’سو بلین ڈالر کا اسلحہ بھی تیار‘
سعودی عرب میں ’ ٹرمپ نواز ممکنہ ملاقات‘، کیا ہونے جا رہا ہے؟
سعودی نائب ولی عہد ٹرمپ سے ملاقات کے لیے امریکا روانہ
سعودی عرب خلیج کے علاقے میں امریکا کا اہم ترین اتحادی ملک ہے اور ریاض حکومت کے مطابق اس دورے کے دوران دونوں ممالک کے مابین متعدد اقتصادی اور سیاسی معاہدوں کو حتمی شکل دی جائے گی۔ اس کے علاوہ واشنگٹن اور ریاض مذہب کے نام خونریزی پھیلانے والے داعش سمیت کئی مسلم شدت پسند گروپوں کے خلاف مشترکہ جنگ میں اپنی کوششوں میں اضافہ بھی کرنا چاہتے ہیں۔
امریکی صدر آج ہفتے کے روز قدامت پسند اسلامی ریاست سعودی عرب کے رہنماؤں سے مذاکرات کریں گے اور کل اتوار اکیس مئی کے روز وہ اسلام کے موضوع پر ایک ایسے اجتماع سے خطاب بھی کریں گے، جس میں 50 کے قریب سرکردہ عرب اور مسلم رہنما شامل ہوں گے۔
اسی دوران نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس نے لکھا ہے کہ امریکی تاریخ میں ڈونلڈ ٹرمپ وہ پہلے صدر ہیں، جنہوں نے اپنی صدارتی ذمے داریاں سنبھالنے کے بعد پہلے غیر ملکی دورے کے لیے سعودی عرب یا کسی اکثریتی طور پر مسلم ریاست کا انتخاب کیا ہے۔
اے پی کے مطابق اس کا ایک مقصد بظاہر یہ بھی ہو سکتا ہے کہ ڈونلڈ ٹرمپ اس دورے کے ذریعے ایک مذہب کے طور پر اسلام کے لیے اپنی طرف سے عزت و احترام کے جذبات کا اظہار کرنا چاہتے ہیں حالانکہ گزشتہ برس اپنی انتخابی مہم کے دوران وہ کئی ماہ تک اسلام اور مسلمانوں کے خلاف کافی سخت اور جذباتی تقریریں کرتے رہے ہیں۔
اپنے اس دورے کے دوران سعودی عرب میں دو روز تک قیام کے بعد امریکی صدر اسرائیل بھی جائیں گے۔ اسرائیل سے وہ یورپی یونین کے رکن ملک اٹلی کا سفر کریں گے۔ اطالوی دارالحکومت روم میں ٹرمپ پہلے تو ویٹی کن سٹی میں کیتھولک مسیحیوں کے روحانی پیشوا پوپ فرانسس سے ملاقات کریں گے اور پھر ان کی منزل اطالوی جزیرہ سسلی ہو گا، جہاں وہ صنعتی طور پر ترقی یافتہ ملکوں کے سات کے گروپ یا جی سیون کے ایک اجلاس میں شرکت کریں گے۔
اپنے اسی کئی ملکی دورے کے دوران ڈونلڈ ٹرمپ بیلجیم کے دارالحکومت برسلز بھی جائیں گے جہاں وہ مغربی دفاعی تنظیم نیٹو کے رکن ملکوں کے سربراہان مملکت و حکومت کے ایک اجلاس میں شرکت کریں گے۔