ٹرمپ کا دوسرا ایگزیکٹیو آرڈر، عدالت نے بے اثر کر دیا
16 مارچ 2017امریکی ریاست ہوائی کے ایک فیڈرل جج نے ملکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے چھ مسلمان ملکوں کے شہریوں اور مہاجرین کے امریکا میں داخلے پر پابندی کے ترمیم شدہ ایگزیکٹیو آرڈر پر بھی عمل درآمد کو روک دیا ہے۔ فیڈرل جج ڈیرک واٹسن نے امریکی حکومت کے ملکی سلامتی کے درپیش خطرے کے دعوے کو تسلیم کرنے سے انکار کرتے ہوئے اِس فرمان کو غیر منطقی قرار دیا۔ اس ایگزیکٹیو آرڈر کو کئی دوسری ریاستوں نے بھی عدالت میں چیلنج کر رکھا ہے۔
صدارتی ایگزیکٹیو آرڈر پر عمل درآمد روکنے کے ابتدائی فیصلے میں جج نے کہا کہ اس پر عمل کرنے سے ریاست ہوائی کو بھاری مالی نقصان کا سامنا ہو سکتا ہے۔ جج کے مطابق نقصان کی وجہ ایگزیکٹیو آرڈر سے سیاحتی سرگرمیوں پر پڑنے والا منفی اثر ہے۔ منصب صدارت سنبھالنے کے بعد ٹرمپ کے ایسے ہی پہلے ایگزیکٹیو آرڈر کو امریکی وفاقی عدالتوں نے بے اثر کر دیا تھا۔
ٹرمپ کے نئے ایگزیکٹیو آرڈر کے خلاف ریاست وسکانسن کی ایک عدالت پہلے ہی حکم امتناعی جاری کر چکی ہے۔ خانہ جنگی کے شکار ملک شام سے تعلق رکھنے والے ایک مہاجر کی جانب سے دائر اپیل کو سماعت دس مارچ کو منظور کرتے ہوئے ریاست وسکانسن کی ایک وفاقی عدالت نے صدر ٹرمپ کے نئے ایگزیکٹیو آرڈر کے اطلاق کو عارضی طور پر روک دیا ہے۔ امریکی ریاست وسکانسن کے وفاقی جج ولیم کونلی کا کہنا تھا کہ اگر اس مدعی پر ایگزیکٹیو آرڈر کا اطلاق کیا گیا، تو اسے ’ناقابل تلافی نقصان‘ پہنچنے کا اندیشہ ہے۔
وسکانسن کے عدالتی فیصلے کے بعد ہوائی کے جج کا حکم صدر ٹرمپ کے ایگزیکٹیو آرڈر کے لیے شدید دھچکہ قرار دیا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ کے نئے ایگزیکٹیو آرڈر پر عمل درآمد سولہ مارچ سے کیا جانا تھا۔ سفری پابندیوں کے اس نئے حکم نامے میں سے عراق کو نکال دیا گیا ہے تاہم شام، ایران، لیبیا، صومالیہ، یمن اور سوڈان سے تعلق رکھنے والے افراد کے امریکا میں داخلے پر پابندی عائد کی گئی ہے۔
ریاست ہوائی کے فیڈرل جج ڈیرک کہالا واٹسن ہوائی کے مقامی باشندے ہیں اور اُنہیں سابق امریکی صدر باراک اوباما نے سن 2013 میں اس عہدے پر فائز کیا تھا۔ امریکی سینیٹ میں اُن کی توثیق کے لیے رائے شماری میں مخالفت میں کوئی ووٹ نہیں ڈالا گیا تھا۔ جج واٹسن نے ہارورڈ یونیورسٹی سے تعلیم حاصل کر رکھی ہے۔