ٹرمپ کا پلان: اسرائیل خوش، فلسطینیوں کا بائیکاٹ
28 جنوری 2020امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ منگل کو فلسطین اسرائیل تنازعے سے متعلق اپنا امن پلان پیش کرنے جا رہے ہیں۔ خدشات ہیں کہ اس میں فلسطینیوں کے لیے کچھ نہیں ہو گا جبکہ اسرائیلی لابی خوش ہو گی۔
صدر ٹرمپ کے اعلان سے پہلے ہی اسرائیلی وزیراعظم واشنگٹن پہنچ چکے ہیں۔ پیر کو وائٹ ہاؤس میں ٹرمپ نے بینجمن نيتن یاہو سے ملاقات کے بعد دعویٰ کیا کہ ان کا یہ منصوبہ ''اس صدی کی سب سے بڑی ڈیل ہو گی۔‘‘
اس سے قطع نظر کہ فلسطینی قیادت نے مجوزہ ڈیل کا بائیکاٹ کر رکھا ہے، امریکی صدر نے امید ظاہر کی ہے کہ ان کا پلان قابل عمل ہو گا۔
اسرائیلی وزیر اعظم نے مجوزہ امریکی پلان کو اسرائیل کی سرحدیں طے کرنے کے لیے ایک تاریخی موقع قرار دیا ہے۔ خدشہ ہے کہ اس پلان کے تحت ٹرمپ اسرائیل کو کھلی چھوٹ دے سکتے ہیں کہ وہ غرب اردن کے مبقوضہ حصوں میں قائم یہودی تعمیرات والے علاقوں کو اسرائیل میں ضم کرتے جائیں۔
اسرائیلی وزیراعظم اور امریکی صدر دونوں کی نظریں اپنے اپنے ملکوں میں انتخابات جیتنے پر ہیں۔ بعض تجزیہ کاروں کے بقول اس 'ڈیل‘ کا اس موقع پر پیش کیے جانے کا تعلق دونوں رہنماؤں کی اپنی داخلی سیاست سے ہو سکتا ہے۔
ذرائع ابلاغ کی رپوٹوں میں اشارے ہیں کہ ٹرمپ فلسطینیوں سے کہیں گے کہ وہ زمینی حقائق قبول کریں، اپنے دیرینہ قومی مطالبات سے دستبردار ہوں اور انہیں اس کے عوض جو کچھ بھی مالی امداد دی جائے، اسی پر اکتفا کریں۔
فلسطینی صدر محمود عباس نے کہا ہے کہ ان پر اس ڈیل کو قبول کرنے کا بڑا دباؤ تھا لیکن انہوں نے اسے مسترد کیا۔
انہوں نے کہا ہے کہ ''مجھے خبردار کیا گیا ہے کہ مجھے اپنے اس موقف کی بھاری قیمت ادا کرنا پڑ سکتی ہے۔‘‘ تاہم انہوں نے کہا، ''میری زندگی اب تھوڑی بچی ہے اور میں اپنی قوم سے غداری کا مرتکب نہیں ہو سکتا۔‘‘ انہوں نے مزید کہا کہ ''آنے والے دن فلسطینیوں کے لیے مشکل ہوں گے لیکن ہمیں اور ہمارے نوجوانوں کو مزاحمت کے لیے آگے آنا ہوگا۔‘‘
فلسطینی تنظیموں نے اس منصوبے کے خلاف مظاہروں کا اعلان کر رکھا ہے۔
اسرائیل کا اصرار ہے کہ وہ جو کچھ کر رہا ہے، وہ قانون کے عین مطابق ہے۔ لیکن دنیا کے بیشتر ملک امریکا اور اسرائیل کے منصوبوں کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے آئے ہیں۔
فلسطینی قیادت ٹرمپ کے پلان کو پیش ہونے سے پہلے ہی رد کر چکی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس منصوبے کو متعارف ہونے سے پہلے ہی مردہ سمجھا جا رہا ہے۔