ٹرمپ کے حکم نے خاندانوں کو تقسیم کر کے رکھ دیا
1 فروری 2017امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے حکم کے تحت سات مسلمان ملکوں کے شہریوں کی امریکا کی جانب سفر اور مہاجرین کے داخلے پر بظاہر عارضی پابندی عائد کی گئی ہے لیکن اس حکم نے خاندانوں کو منتشر کرنے کے علاوہ معاشرتی طور پر جھنجوڑنے کے ساتھ ساتھ نفسیاتی عوارض میں مبتلا کر دیا ہے۔
اس صورت حال کا سامنا ایک یمنی نژاد امریکی شہری ناگی الغائم کو بھی ہے۔ وہ گزشتہ برس دسمبر میں اپنی بیوی کے ساتھ ملائیشیا گیا تھا اور اپنی پانچ برس کی بیٹی کو امریکی شہر ڈیٹرائٹ میں اپنے عزیزوں کے پاس چھوڑ آیا تھا۔ وہ اب ملائیشیا میں پھنس کر رہ گیا ہے جہاں وہ یمنی شہریت رکھنے والی اپنی بیوی کوکب الغزالی کی امیگریشن دستاویزات مکمل کرنے کی کوشش میں تھا۔ اُسے ملائیشین ایئر لائنز نے کہا ہے کہ وہ تو امریکا جا سکتا ہے لیکن اُس کی بیوی کو سفر کرنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔ ناگی اپنی بیٹی سے جدا ہے اور بیوی کو چھوڑنا کر واپس جانا نہیں چاہتا۔
اسی حکم سے شام کے اُن مہاجر خاندانوں کے خواب بھی ٹوٹ کر رہ گئے ہیں، جو جلد ہی امریکا اپنے بقیہ خاندان کے پاس جانے والے تھے۔ شامی خاتون براء حاج خلاف بھی ایک سفری غلطی کی تصیح میں تاخیر کے باعث ٹرمپ کے حکم کی زد میں آ گئیں۔ وہ اپنے شوہر اور بیٹی کے ہمراہ اپنے والدین کے پاس پہنچنے سے محروم ہو گئی ہیں۔
براء کو استنبول ایئر پورٹ پر بتایا گیا کہ وہ امریکا کا سفر اختیار نہیں کر سکتیں۔ وہ سن 2003 سے امریکا جانے کی منتظر تھیں۔ شکاگو میں براء کے والد خالد حاج خلاف نے اس حکم پر شدید رنج و غم کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ اس حکم نے امریکا کی جمہوری آزادی کی حقیقت اور اصل صورت کو بے نقاب کر دیا ہے۔
امریکا میں مہاجرین کی رضاکارانہ طور پر مدد کرنے والے ایک گروپ ’ریفیوجی وَن‘ کی ایگزیکٹو ڈائریکٹر میلینا کانو کا کہنا ہے کہ امریکی صدر کے ایک حکم سے امریکا پہنچنے والے مہاجرین کے مستقبل پر سوالیہ نشان لگ گیا ہے۔ کانو کی تنظیم مختلف افراد سے گھریلو سامان اکھٹا کر کے مہاجرین میں تقسیم کرتی ہے۔
اسی طرح صومالیہ، عراق اور افغانستان سے امریکا کا سفر کرنے والے مہاجرین کو بھی نا امیدی اور مایوسی کے ساتھ ساتھ اسٹریس کا سامنا ہے۔ ان ملکوں کے مخدوش حالات کی وجہ سے امریکا میں مقیم خاندان کے افراد اپنے بقیہ افراد کی زندگیوں کے لیے شدید اضطراب کی کیفیت کا سامنا کر رہے ہیں۔ افغانستان میں امریکی فوجیوں کے ساتھ کام کرنے وہ افغان مترجم جنہیں ہوائی اڈے پر روک دیا گیا ہے، اُن کی زندگیوں کو طالبان کی جانب سے کسی بھی وقت حملے کا خدشہ لاحق ہے۔