ٹرمپ کے دور میں ایران کے اندر انقلاب کی ضرورت ہے: رضا پہلوی
9 اپریل 2017رضا پہلوی نے ایک نئے انقلاب کے بعد ایران میں مذہبی حکومت کی جگہ پارلیمانی بادشاہت کو قائم کرنے کی تجویز پیش کی ہے۔ اِس پارلیمانی بادشاہت کے خد و خال بیان کرتے ہوئے انہوں نے واضح کیا کہ اس کے لازمی اجزا میں انسانی حقوق کا احترام اور ریاستی معیشت کو جدید خطوط پر استوار کرنا شامل ہو گا۔ پہلوی کے مطابق ایران میں انقلاب کے بعد قائم ہونے والی بادشاہت خلیجی عرب ریاستوں اور مغربی اقوام کو بھرپور تعاون فراہم کرے گی۔
سابق ایرانی بادشاہ کے بیٹے نے اپنا یہ بیان امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے منصبِ صدارت سنبھالنے کے بعد دیا ہے۔ ٹرمپ واضح کر چکے ہیں کہ وہ مذہبی علماء کی قیادت میں قائم ایرانی حکومت کے خلاف انتہائی سخت موقف اپنائیں گے۔ اسی تناظر میں جلاوطن ایرانی شہزادے نے کسی ممکنہ انقلاب کو ٹرمپ کی صدارت کے ساتھ نتھی کیا ہے۔
نیوز ایجنسی ایسوسی ایٹڈ پریس کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے رضا پہلوی نے واضح کیا کہ ایران کی موجودہ حکومت میں اصلاح ممکن ہی نہیں کیونکہ اس کی فطرت میں اصلاحاتی عمل کی گنجائش ہی نہیں پائی جاتی۔ جلاوطن ایرانی شہزادے کے مطابق عوام بھی حکومت میں اصلاحاتی عمل پیدا نہ ہونے سے اکتا چکی ہے اور وہ سوچنے پر مجبور ہے کہ بنیادی تبدیلی اب ضروری ہو گئی ہے۔ پہلوی کے مطابق سب سے اہم سوال یہ ہے کہ ایران میں ایسی بنیادی تبدیلی کیونکر ممکن ہے۔
سن 1979 کے ولی عہد جب جلاوطن ہوئے تھے تو وہ محض سترہ برس کے تھے اور اب وہ پچپن برس کے ہو چکے ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پہلوی خاندان کا جادوائی اثر اب بھی کئی ایرانی شہروں اور لاکھوں لوگوں میں موجود ہے۔ انہوں نے یہ واضح کرنے سے گریز کیا کہ وہ اس جادوئی اثر کو ایک عوامی تحریک کی صورت کیسے دے سکتے ہیں جو اُن کو ایرانی عوام کا ایک متبادل لیڈر بنا سکے۔
رضا پہلوی امریکا میں جلاوطنی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔