ٹیلی کوم اسکینڈل: من موہن سنگھ دوبارہ تحقیقات پر آمادہ
22 فروری 2011نئی دہلی سے ملنے والی رپورٹوں کے مطابق یہ اسکینڈل ٹیلی مواصلات کے شعبے میں 2008ء میں ہونے والی اس سرکاری نیلامی سے متعلق ہے، جس میں ریاستی خزانے کو قریب 40 بلین یورو کا مالی نقصان ہوا تھا۔
اس نیلامی میں بھارت میں ٹیلی کمیونیکیشن کے شعبے میں ایسے لائسنس فروخت کیے گئے تھے، جن کی قیمت ان کی کھلی منڈی میں اصل قیمت سے کہیں کم رہی تھی۔
اس نیلامی کی نگرانی من موہن سنگھ حکومت میں ٹیلی مواصلات کے سابق وزیر اے راجہ نے کی تھی، جو گزشتہ برس نومبر میں اپنے عہدے سے مستعفی ہو گئے تھے۔ اس وقت اے راجہ اپنی گرفتاری کے بعد پولیس کی حراست میں ہیں اور ان سے پوچھ گچھ کی جا رہی ہے۔
اس اسکینڈل کی وجہ سے من موہن سنگھ حکومت گزشتہ کئی مہینوں سے اپوزیشن کے انتہائی شدید دباؤ میں ہے۔ اسی سبب خود وزیر اعظم سنگھ کی ساکھ بھی بری طرح متاثر ہوئی تھی، جو بھارتی سیاست میں عام طور پر ’مسٹر کلین‘ کہلاتے ہیں۔ اس حوالے سے ہندو قوم پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کا من موہن سنگھ پر الزام یہ تھا کہ وہ ایک بد عنوان حکومت کی قیادت کر رہے ہیں۔
بھارت میں ٹیلی کوم کے اسی اسکینڈل اور بد عنوانی کے چند دیگر مبینہ واقعات کی وجہ سے اپوزیشن نے ملکی پارلیمان کا گزشتہ اجلاس بھی مکمل طور پر مفلوج کیے رکھا تھا۔
یہ اسکینڈل بھارتی ٹیلی کمیونیکیشن انڈسٹری میں سیکنڈ جنریشن موبائل ٹیلی فونز کے لائسنسوں کے بارے میں تھا اور اس سلسلے میں پولیس نے ابھی حال ہی میں ایک معروف صنعت کار انیل امبانی سے بھی پوچھ گچھ کی تھی، جوبھارت کے امیر ترین صنعت کار ہیں۔
نئی دہلی حکومت یہ تسلیم کرنے سے انکاری ہے کہ اس ٹیلی کوم اسکینڈل کی وجہ سے ملکی خزانے کو قریب 40 بلین یورو کا نقصان ہوا تھا۔ لیکن بھارتی آڈیٹر جنرل کی ایک رپورٹ میں ماہرین نے یہی اندازے لگائے تھے کہ ’پہلے آئیے، پہلے پائیے‘ کی بنیاد پر کی جانے والی اس سرکاری نیلامی سے ریاست کو ادا کی گئی قیمت کے مقابلے مزید 40 بلین یورو کی آمدنی ہو سکتی تھی۔ تاہم اس نیلامی میں مبینہ بد عنوانی کی وجہ سے ایسا نہ ہو سکا۔
من موہن سنگھ حکومت کو بالواسطہ طور پر گزشتہ برس اکتوبر میں نئی دہلی میں ہونے والے کھیلوں کےکامن ویلتھ مقابلوں کے انتظامات کے سلسلے میں بھی کئی طرح کے مالی اسکینڈلز کا سامنا رہا تھا۔
رپورٹ: عصمت جبیں
ادارت: عدنان اسحاق