1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

ٹی ٹی پی سے قطعی کوئی بات چیت نہیں ہو رہی، پاکستان

15 دسمبر 2023

پاکستان نے تحریک طالبان پاکستان کے ساتھ کسی طرح کے مذاکرات کی سختی سے تردید کی ہے۔ حالیہ عرصے میں ملک میں ہونے والے متعدد بڑے دہشت گردانہ حملوں کے لیے اسلام آباد نے اسی عسکریت پسند تنظیم کو مورد الزام ٹھہرایا ہے۔

https://p.dw.com/p/4aAwt
پاکستان کا کہنا ہے کہ حالیہ عرصے میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں  میں ٹی ٹی پی کا ہاتھ ہے
پاکستان کا کہنا ہے کہ حالیہ عرصے میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں میں ٹی ٹی پی کا ہاتھ ہےتصویر: Saood Rehman/picture alliance/dpa/EPA

پاکستان کے دفترخارجہ نے کالعدم عسکریت پسند تنظیم تحریک طالبان پاکستان (ٹی ٹی پی) کے ساتھ کسی بھی سطح پر مذاکرات کی خبروں کی "سختی" سے تردید کی ہے۔ میڈیا میں خبریں آئی تھیں کہ پاکستان کابل میں افغان طالبان حکومت کی ثالثی میں ٹی ٹی پی کے ساتھ مذاکرات کر رہا ہے۔

پاکستان دفتر خارجہ کی ترجمان ممتاز زہرہ بلوچ نے جمعرات کے روز میڈیا سے بات چیت کرتے ہوئے کہا، "اس عسکریت پسند تنظیم کے ساتھ کوئی بات چیت نہیں ہو رہی جو پاکستان میں حالیہ ہونے والے بڑے حملوں کی ذمہ دارہے۔"

زہرہ بلوچ نے ایک سوال کے جواب میں ٹی ٹی پی سے مذاکرات کی خبروں یا قیاس آرائیوں کی سختی سے تردید کرتے ہوئے کہا، "بالکل کوئی بات چیت نہیں ہورہی۔"

انہوں نے پاکستان کے اس موقف کا اعادہ کیا کہ افغانستان کی عبوری حکومت اپنی سرزمین پر موجود عسکریت پسندوں کے خلاف سخت کارروائی کرے۔

پاکستان میں ملٹری کیمپ پر خود کش حملے میں تیئیس فوجی ہلاک

پاکستان کا کہنا ہے کہ حالیہ عرصے میں پاکستان میں ہونے والے دہشت گردی کے حملوں اور بالخصوص گزشتہ منگل کے روز ڈیرہ اسماعیل خان میں ہونے والے حملے، جس میں 23 پاکستانی فوجی اہلکار ہلاک اور متعدد زخمی ہوگئے، میں ٹی ٹی پی کا ہاتھ ہے، جنہوں نے افغانستان میں پناہ لے رکھی ہے اور وہاں سے یہ حملے کررہے ہیں۔

کابل ان الزامات کی تردید کرتا ہے۔

فروری میں پشاور کی ایک مسجد میں ہونے والے حملے کی ذمہ  داری ٹی ٹی پی نے لی تھی
فروری میں پشاور کی ایک مسجد میں ہونے والے حملے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی نے لی تھی تصویر: Fayaz Aziz/REUTERS

افغانستان ٹھوس اقدامات کرے، پاکستان

خیال رہے کہ ڈیرہ اسماعیل خان حملے کی ذمہ داری ٹی ٹی پی سے مبینہ طورپر وابستہ تحریک جہاد پاکستان (ٹی جے پی) نے قبول کی تھی۔ ٹی جے پی نے ایک بیا ن میں کہا تھا کہ اس کے عسکریت پسندوں نے پاکستانی فوج کو نشانہ بنانے کے لیے یہ حملہ کیا۔

اس واقعے کے بعد پاکستان نے افغان عبوری حکومت کے ناظم الامور کو دفتر خارجہ میں طلب کرکے سخت احتجاج درج کروایا تھا۔

پاکستان دفتر خارجہ کی ترجمان کا کہنا تھا،" افغانستان ایسے گھناونے حملے کے قصورواروں اور افغانستان میں موجود ٹی ٹی پی کی قیادت کے خلاف سخت کارروائی کرے اور انہیں پاکستان کے حوالے کرے۔"

ترجمان نے کہا کہ پاکستان کو افغان عبوری حکومت کے اس بیان کا علم ہے کہ وہ 12دسمبر کو ہونے والے حملوں کی تفتیش کرائے گی۔ زہرہ بلوچ نے مزید کہا،" ہمیں یہ امید بھی ہے کہ افغانستان ٹھوس اقدامات کرے گا اور افغان سرزمین کو پاکستان کے خلاف حملوں کے لیے استعمال کرنے سے روکے گا۔"

خیال رہے کہ افغانستان کی عبوری حکومت کے ترجمان نے پاکستان میں منگل کو ہونے والے حملے سے لاتعلقی کا اظہار کرتے ہوئے کہا تھا کہ وہ اسلام آباد کی جانب سے اٹھائے گئے کسی بھی مسئلے کی تحقیقات کریں گے۔

چلاس میں بس پر عسکریت پسندوں کی فائرنگ، دو فوجیوں سمیت نو افراد ہلاک

طالبان کے ترجمان ذبیح اللہ مجاہد کا کہنا تھا، "اگر وہ (پاکستان) تحقیقات کا مطالبہ کرتے ہیں، اگر وہ ہمارے ساتھ تفصیلات شیئر کرتے ہیں، تو ہم تحقیقات کریں گے۔"

یاد رہے کہ ٹی ٹی پی نے نومبر 2022 میں اسلام آباد حکومت کے ساتھ جنگ بندی معاہدہ ختم کردیا تھا جس کے بعد سے پاکستان کے شمالی مغربی علاقوں میں عسکریت پسندوں کے حملوں میں کافی تیزی آگئی ہے۔

آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے امریکی حکام سے ٹی ٹی پی اور افغانستان سے سرگرم دیگر عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائیوں میں مدد طلب کی ہے
آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے امریکی حکام سے ٹی ٹی پی اور افغانستان سے سرگرم دیگر عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائیوں میں مدد طلب کی ہےتصویر: W.K. Yousufzai/AP/picture alliance

ٹی ٹی پی کے خلاف امریکہ سے امداد طلب

اطلاعات کے مطابق پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے امریکی حکام سے ٹی ٹی پی اور افغانستان سے سرگرم دیگر عسکریت پسند تنظیموں کے خلاف کارروائیوں میں مدد طلب کی ہے۔

پاکستان کا کہنا ہے کہ امریکی افواج کے افغانستان سے جلد بازی میں انخلا اور طالبان کی طرف سے حکومت پر کنٹرول کے دوران افغان فورسز کی پسپائی کے دوران جو اسلحہ چھوڑ دیا گیا وہ عسکریت پسندوں کے ہاتھوں میں چلا گیا ہے جو کہ ایک اور بڑا چیلنج ہے۔

جنرل عاصم منیر ان دنوں امریکہ کے دورے پر ہیں۔ ذرائع کے مطابق انہوں نے امریکی سکیورٹی اور دفاعی حکام کے ساتھ ملاقاتوں میں انہیں یہ باور کرانے کی کوشش کی کہ ٹی ٹی پی اور داعش (خراسان) جیسے عسکریت پسند گروپ صرف پاکستان کے لیے ہی نہیں بلکہ امریکہ اورعالمی سلامتی کے لیے بھی خطرہ ہیں۔

جنرل منیر کا دورہ: پاکستان ہمارا اہم اتحادی اور پارٹنر ہے، امریکہ

امریکی محکمہ خارجہ کے ترجمان میتھیو ملر سے جب نامہ نگاروں سے سوال کیا کہ امریکہ پاکستان کی کس طرح مدد کرسکتا ہے؟ تو ان کا کہنا تھا کہ امریکہ نے پاکستان کی انسداد دہشت گردی کی استعداد میں اضافے اور انصاف کی فراہمی کے لیے کئی پروگرامات پر مالی معاونت کی ہے۔

واشنگٹن روانہ ہونے سے قبل جنرل عاصم منیر نے اسلام آباد میں افغانستان کے لیے خصوصی امریکی نمائندے تھامس ویسٹ سے ملاقات کی تھی۔ بعد میں ویسٹ نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں لکھا تھا،"امریکہ اس خطے میں دہشت گردی کے خلا ف جنگ میں پاکستان کے ساتھ کھڑا ہے۔"

ج ا/ ص ز (نیوز ایجنسیاں)