پانی چوس کنواں: بارش کا پانی محفوظ کرنے کا مؤثر طریقہ
6 اکتوبر 2024ورلڈ بینک کی 2021ء میں شائع ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان کی ستر فیصد گھریلو اور پچاس فیصد سے زائد زرعی ضروریات زیر زمین پانی کے استعمال سے پوری ہو رہی ہیں۔ اس مقصد کے لیے روزانہ کروڑوں لیٹر پانی زمین سے نکالا جا رہا ہے۔
پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز کی ویب سائٹ کے مطابق ”لاہور شہر میں اٹھارہ سو سے زائد سرکاری اور نجی ٹیوب ویل روزانہ تقریباً 3500 ایکڑ فٹ (چار سو کروڑ لیٹر) پانی نکال رہے ہیں جس سے زیر زمین پانی کی سالانہ سطح اوسطاً ساڑھے تین فٹ کم ہوتی جا رہی ہے۔"
پاکستان کا شمار ان ممالک میں ہوتا ہے جنہیں پانی کی شدید قلت کا سامنا ہے۔ ماہرین کے مطابق اگر زیر زمین پانی کے ذخائر اسی رفتار اور مقدار سے استعمال ہوتے رہے تو ملک میں پانی کا بحران کہیں زیادہ شدت اختیار کر جائے گا جس سے بچنے کے لیے ضروری ہے کہ زیر زمین پانی کے ذخائر کو ریچارج کرتے رہا جائے۔
زیر زمین پانی کے ذخائر کو ریچارج کرنے کا ایک مؤثر طریقہ پانی چوس کنواں ہے۔
پانی چوس کنواں کیا ہوتا ہے؟
ریچارج ویل کو اردو میں 'پانی چوس کنواں‘ کے نام سے ترجمہ کرنے والے ظفر اقبال وٹو آبی وسائل کے ماہر اور معروف محقق ہیں۔
ڈی ڈبلیو اردو سے بات کرتے ہوئے وہ بتاتے ہیں کہ، ”پانی چوس کنواں ایسا نظام ہے جو بارش کے پانی کو زیر زمین پانی سے ملانے کے لیے بنایا جاتا ہے۔ زمین کے نیچے پانی کے ذخائر موجود ہیں جنہیں دوبارہ بھرنے کے لیے بارش کا پانی ان تک پہچانا ضروری ہے۔ زمین کی اوپر والی سخت تہہ اور سیمنٹ یا تارکول کے فرش سے تو پانی نیچے جا نہیں سکتا۔ اس لیے پانی کی گزرگاہ یا قدرتی بہاؤ کے راستے میں ایسے کنویں کھود دیے جاتے ہیں جن سے پانی زمین کے نیچے پہنچ سکے۔ انہیں پانی چوس کنویں کہتے ہیں۔"
پانی کا بحران: پاکستان خشک کیوں ہو رہا ہے؟
وہ مزید بتاتے ہیں کہ، ”ایسے کنویں میں ریت یا کنکروں کی ایسی قابل نفوذ پرتیں ہوتی ہیں جو پانی کا راستہ نہیں روکتیں۔ بارش کا پانی چھوٹی چھوٹی آبی گذرگاہوں کی مدد سے ایک طرف موڑا جاتا ہے جہاں پہلے سے کنواں موجود ہے۔ بارش کا پانی پہلے ریت، بجری اور دیگر فلٹرنگ مواد کی مدد سے صاف ہوتا ہے اور پھر آہستہ آہستہ زمین میں چلا جاتا ہے۔"
پانی چوس کنویں کیوں ضروری ہیں؟
پاکستان جیسے پانی کی قلت کا شکار ممالک میں پانی چوس کنواں زیر زمین پانی کے ذخائر کو بھرنے کا ایک مؤثر طریقہ سمجھا جاتا ہے۔
ظفر وٹو کہتے ہیں، ”پہلے دریا اور ان سے نکلنے والی نہریں زیر زمین پانی کی سطح برقرار رکھنے کے لیے خودکار طریقے سے کام کر رہے تھے۔ اب وہ خود نیم مردہ ہو چکے تو زمین میں کیا جان ڈالیں گے۔ زیر زمین پانی کی سطح برقرار رکھنا ہماری بقا کے لیے ضروری ہے۔ اس سے پینے کا پانی، زراعت اور صنعت براہ راست جڑے ہیں۔‘‘
زمین چوس کنویں کی دوسری بڑی اہمیت بارش کے محفوظ پانی کو ضائع اور آلودہ ہونے سے بچانا ہے۔ اگر بارش کا پانی زمین میں نہیں جاتا تو وہ سیلابی پانی بنتا ہے یا سیوریج میں شامل ہو کر زہر میں تبدیل ہو جاتا ہے۔ زمین کا اپنا سسٹم ہے، وہ بارش کے پانی کو صاف کر کے ہمیں دیتی ہے لیکن اگر سیوریج کا پانی اس میں جائے تو فطری نظام اس کا بوجھ نہیں اٹھا سکتا۔ اس لیے ہمیں بارش کا پانی آلودہ کیے بغیر زمین کو لوٹانا ہوتا ہے جس کے لیے پانی چوس کنویں بہترین ذریعہ ہیں۔
زمین سے بہت زیادہ پانی نکالتے رہنے سے زمینی محور ہی سرک گیا
ظفر وٹو کہتے ہیں، ”پہلے راوی لاہور کے زیر زمین ذخائر اور پانی کی سطح برقرار رکھنے کا کام کر رہا تھا۔ تب زمین سے پانی بھی نسبتاً کم نکالا جا رہا تھا کیونکہ آبادی کم تھی، ضروریات کم تھیں، پانی کا استعمال کم تھا۔ اب پانی کا استعمال کئی گنا بڑھ گیا، دوسری جانب راوی بھی سیوریج میں بدل گیا۔ ایسے میں زمین تازہ پانی کہاں سے حاصل کرے گی؟ پانی چوس کنویں اسی خلا کو پُر کرنے کی کوشش ہے۔"
پاکستان میں پانی چوس کنویں تعمیر کرنے کا حوصلہ افزا رجحان
لاہور، کراچی اور اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں پانی کی بڑھتی ہوئی قلت اور زیر زمین پانی کی سطح کو برقرار رکھنے کے لیے کئی مقامات پر پانی چوس کنویں تعمیر کیے گئے ہیں۔ ستمبر 2021ء سے جون 2022ء کے دوران اسلام آباد میں مختلف مقامات پر پچاس پانی چوس کنویں کھودے گئے جن میں پاکستان کونسل آف ریسرچ اِن واٹر ریسورسز کے اعداد و شمار کے مطابق گذشتہ برس 19 لاکھ گیلن واٹر بارش کا پانی جمع ہوا اور زمین کے اندر تک پہنچا۔
اسلام آباد ڈویلپمنٹ اتھارٹی میں پانی کی فراہمی کے امور کے نگران ڈپٹی ڈائریکٹر جنرل سردار خان کہتے ہیں کہ ”اسلام آباد میں مختلف مقامات پر مزید پچاس کنویں تیار کیے جا رہے ہیں اور اس طرح یہ تعداد بہت جلد سو تک پہنچ جائے گی۔"
پاکستان میں واٹر ایمرجنسی کا الارم بجنے کو ہے
پاکستان میں زیر زمین پانی کے استعمال پر تحقیق کرنے والی مصنفہ ڈاکٹر لائبہ امجد ڈی ڈبلیو اردو کو بتاتی ہیں کہ، ”دنیا بھر میں سب سے زیادہ زیر زمین پانی استعمال کرنے والے ممالک میں پاکستان تیسرے نمبر پر ہے۔ 1960ء میں پاکستان میں تقریباً تیس ہزار ٹیوب ویل تھے جو آج چودہ لاکھ سے زیادہ ہو چکے ہیں۔ یہاں بغیر تحقیق ٹیوب ویل لگے جو جتنا پانی چاہیں نکالیں کوئی روک ٹوک نہیں۔ اس سے زیر زمین آبی ذخائر اور نکالے جانے والے پانی کے درمیان شدید عدم توازن پیدا ہوا۔"
لائبہ امجد کہتی ہیں، ”دریا ہمارے بس میں نہیں رہے۔ اب سب سے بڑا سورس بارش کا پانی ہے جسے محفوظ کرنا ناگزیر ہے۔ ہمارے ہاں پانی چوس کنویں کا رجحان زور پکڑ رہا ہے جو بہت حوصلہ افزا ہے۔ ابھی یہ تجرباتی مراحل ہیں لیکن سلسلہ آگے بڑھ رہا ہے۔ پانی چوس کنویں کے لیے بڑے بجٹ کی ضرورت ہے نہ وسائل کی۔ چھوٹے چھوٹے پارک اور آبی گذرگاہیں استعمال میں لا کر اسے مزید موثر کیا جا سکتا ہے۔"
ظفر وٹو کہتے ہیں، ”شہری اور دیہی سطح پر مقامی اداروں کو شامل کر کے 'ڈونگی گراؤنڈ‘ بنانے چاہیں جو تین چار فٹ گہرے ہوں۔ وہ پانی اسٹور کریں گے۔ ان کے ساتھ ہی پانی چوس کنواں ہو جو اسے زیر زمین پہنچا دے۔ اس طرح دائرہ مزید وسیع اور اثرات ہمہ گیر ہوں گے۔"