پانی کی لہروں پر بنے گھر
ٹیکنالوجی کا شاندار استعمال کرتے ہوئے دنیا بھر میں پانی کی سطح پر تیرتے رہائشی منصوبے وضع کیے جا رہے ہیں۔ اس طرح سے اور باتوں کے علاوہ سمندروں میں پانی کی مسلسل بلند ہوتی ہوئی سطح کے مسئلے سے بھی نمٹا جا سکے گا۔
طویل عرصے سے چلی آ رہی روایت
دنیا کے کئی حصوں میں لوگ پانی پر رہتے ہیں۔ کشمیر میں ہاؤس بوٹس 25 سے 40 میٹر طویل ہوتی ہیں۔ یہ خاص طور پر سیاحوں کے لیے بنائی گئی تھیں۔ ان کا رواج برصغیر میں انگریزوں کے دورِ حکومت میں شروع ہوا تھا۔
سیلاب سے بچاؤ
ہالینڈ کی ایک معمار کمپنی ’واٹر اسٹوڈیو‘ نے یورپ کے پہلے تیرتے رہائشی کمپلیکس کا خاکہ تیار کیا ہے۔ سیلاب وغیرہ سے محفوظ ایسی ایک عمارت ساٹھ رہائشی اپارٹمنٹس پر مشتمل ہو گی۔ اس میں باہر کھلے آسمان تلے بیٹھنے یا پھر پارکنگ کے لیے بھی کافی جگہ ہو گی۔
انسانوں کے لیے نہیں
یہ ڈیزائن بھی ’واٹر اسٹوڈیو‘ کا ہے لیکن یہ عمارت انسانوں کے لیے نہیں بلکہ جانوروں کے لیے بنائی جائے گی۔ اس عمارت کو ’سمندری درخت‘ کا نام دیا گیا ہے، جہاں نباتات اور حیوانات انسانوں کی مداخلت سے مکمل طور پر آزاد رہتے ہوئے پھل پھول سکیں گے۔
تیرتی مسجد
متحدہ عرب امارات کے لیے تیرتی ہوئی مسجد کا ڈیزائن بھی ہالینڈ ہی کے ماہرینِ تعمیرات نے بنایا ہے۔ اس کے اندر شفاف ستون ہیں، جو ایک جانب چھت کو سہارا دیتے ہیں اور دوسری جانب مسجد کے اندرون کو روشن بھی کرتے ہیں۔
ماحول دوست سیاحت
سمندروں میں پانی کی بلند ہوتی ہوئی سطح کا خطرہ بحر ہند کے جزائر کو بھی ہے، مالدیپ کو بھی، جس کے لیے ہالینڈ ہی کے ماہرین نے ’گرین سٹار‘ کے نام سے ایک تیرتے ہوٹل کا خاکہ تیار کیا گیا ہے۔ اس ہوٹل میں سیاحوں کے لیے آٹھ سو کمروں کے ساتھ ساتھ ایک ایسے کانفرنس ہال کی بھی گنجائش ہو گی، جس میں دو ہزار افراد بیٹھ سکیں گے۔
ایک پھول جیسا
مالدیپ کے لیے واٹر سٹوڈیو نے ایک ایسا ڈیزائن بنایا ہے، جو جزائر پر مشتمل اسی ریاست میں پائے جانے والے ایک پھول کی شکل کا ہے۔ ہر طرح کا عیش و آرام فراہم کرنے والے 185 بنگلے، جن تک کشتی کے ذریعے جایا جا سکتا ہے، تیار بھی ہو چکے ہیں۔
کچھ ایسا
اور یوں دکھائی دیتے ہیں ہر طرح کا عیش و آرام فراہم کرنے والے یہ بنگلے۔ پھر یہ بھی ہے کہ ان کے لیے مالدیپ کے کسی بھی شہری کو بے گھر نہیں ہونا پڑے گا کیونکہ یہ ایک قریبی مصنوعی جزیرے پر بنائے جائیں گے۔
ہالینڈ کے کشتی گھر
ہالینڈ کے شہر ایمسٹرڈم کی نہروں میں یہ کشتی گھر کچھ عرصے سے نہیں بلکہ عشروں پہلے سے نظر آ رہے ہیں۔ ایمسٹرڈم میں رہائش مہنگی ہے، اس لیے کوئی ڈہائی ہزار کنبے مستقلاً اس طرح کے کشتی گھروں میں رہتے ہیں۔
پورا گاؤں
شمالی ویت نام کی خلیج ہالونگ، جہاں پورے کے پورے گاؤں ہی پانی کی سطح پر تیرتے ہیں۔ تقریباً سولہ سو افراد لکڑی کے ان تیرتے ہوئے گھروں میں رہتے ہیں۔ ان کا ذریعہٴ معاش ماہی گیری اور موتیوں کی کاشت ہے جبکہ انہیں اس یونیسکو کے عالمی ثقافتی ورثے میں شامل ملک کے اس مشہور مقام کی سیر کو آنے والے سیاحوں سے بھی آمدنی ہوتی ہے۔
ایک ایک گھر کروڑوں ڈالر میں
جیسا کہ فضا سے لی گئی اس تصویر میں دیکھا جا سکتا ہے، عرب دنیا میں بھی پانی پر رہائش کا آغاز ہو چکا ہے۔ دبئی میں اس طرح کے سینکڑوں رہائشی جزائر بنائے گئے ہیں۔ ایک ایک گھر کی قیمت کروڑوں ڈالر ہے۔
تنقید
دبئی میں ہی سن 2001ء سے پام کے درخت کی شکل کے یہ جزیرے بنائے جا رہے ہیں۔ اب تک صرف ایک ہی پام جزیرہ تعمیر ہو سکا ہے اور صرف اُسی تک گاڑی کے ذریعے جایا جا سکتا ہے۔ اس مقام پر پانی کی خراب سرکولیشن کی وجہ سے یہ منصوبہ ہدفِ تنقید بھی بن رہا ہے۔ پانی کی وجہ سے وہاں کائی جمنے لگی ہے۔