’احمدی کمیونٹی سیاسی مقاصد کے لیے بطور قربانی کا بکرا‘
16 نومبر 2017پاکستان پیپلز پارٹی کے بانی اور سابق وزیراعظم ذوالفقار علی بھٹو کے دورِ اقتدار میں سن 1974 میں احمدیوں کو غیر مسلم قرار دیا گیا تھا۔ اس کے بعد جنرل ضیاء الحق کی فوجی حکومت کے دوران بھی کی گئی قانون سازی کے تحت احمدیوں کا خود کو مسلمان قرار دینا بھی قابل سزا قرار دیا گیا تھا۔
احمدی برادری سے تعلق رکھنے والے عثمان احمد برطانیہ سے پاکستان منتقل ہوئے تھے تاکہ وہ اپنی کمیونٹی کے لیے فعال کارکن کے طور پر کام کر سکیں۔ احمد نے خبر رساں ادارے روئٹرز سے بات کرتے ہوئے کہا، ’’ ہماری کمیونٹی کو سیاسی مخالفین نے ایک دوسرے کو نشانہ بنانے کی غرض سے قربانی کا بکرا بنا رکھا ہے۔‘‘
احمدی کمیونٹی پاکستان میں سن 2018 میں ہونے والے عام انتخابات کے تناظر میں ملک کی مذہبی اور دیگر مضبوط ساکھ رکھنے والی سیاسی جماعتوں کی نظر میں ہے۔
گزشتہ ماہ پاکستانی پارلیمان میں انتخابی اصلاحات میں ترامیم کا ایک بل پیش کیا گیا تھا جس میں پیغمبر اسلام کے ختم نبوت کے حلف سے متعلق شق میں مبینہ طور پر تبدیلی لائی گئی تھی۔ تاہم نشاندہی کے بعد اس شق کو اس کی اصل شکل میں بحال کر دیا گیا تھا۔ اس قانون کے منظور ہونے کی صورت میں احمدی فرقے سے تعلق رکھنے والے پاکستانیوں کے لیے انتخابات میں حصہ لینا آسان ہو جاتا۔
تاہم اس کے ردعمل کے طور پر نہ صرف ملکی پارلیمان میں اس کی مذمت کی گئی بلکہ پاکستان میں ایک نئی وجود میں آنے والی مذہبی جماعت نے دارالحکومت اسلام آباد میں دھرنا بھی دے رکھا ہے۔ مقامی رہنماؤں کے مطابق پاکستان میں نصف ملین احمدی آباد ہیں جبکہ بعض تخمینوں کے مطابق یہ تعداد دو سے چار ملین ہے۔
کمیونٹی لیڈران کا کہنا ہے کہ انسداد دہشت گردی کے قانون نے احمدیوں کو ٹارگٹ کرنے میں نئی داغ بیل ڈالی ہے۔ پاکستان میں احمدی کمیونٹی کے ترجمان سلیم الدین کا کہنا ہے،’’یہاں پاکستان میں احمدی ہونا جرم ہے۔‘‘
'اسٹیٹ آف اسلام‘ کی مصنفہ سعدیہ طور کے مطابق،’’ ایسا لگتا ہے کہ پاکستان میں آئندہ انتخابات کے انعقاد تک احمدی مخالف بیانیے میں اضافہ ہو گا۔‘‘ طور نے خبر رساں ادارے روئٹرز کو بتایا،’’ پاکستان بھر میں احمدی مخالف جذبات بڑے پیمانے پر پائے جاتے ہیں۔ حتی کے اعتدال پسند سنی مسلک کے افراد بھی انہی خیالات کے حامل ہیں۔ اس لیے احمدی فرقے کے لوگوں کو قربانی کا بکرا آسانی سے بنایا جا سکتا ہے۔‘‘