پاکستانی ارکان پارلیمنٹ کے ترقی کرتے اثاثے
15 ستمبر 2010پاکستان کی ایک غیر سرکاری تنظیم پاکستان انسٹی ٹیوٹ آف لیجیسلیٹیو ڈیویلپمنٹ اینڈ ٹرانسپیرنسی(PILDAT) کی طرف سےیہ رپورٹ بدھ کے روز جاری کی گئی۔
ممتاز قانون دان جسٹس ریٹائرڈ ڈاکٹر ناصرہ جاوید اقبال نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ ایک ایسے وقت میں جب پاکستان میں دہشت گردی، لوڈ شیڈنگ اور افراط زر کی وجہ سے سارے کاروبار مندے کا شکار ہیں، ارکان اسمبلی کے اثاثوں میں غیر معمولی اضافہ ہر پاکستانی کیلئے حیرت کا باعث ہے۔
لاہور ہائیکورٹ بار ایسو سی ایشن کی سابق صدر ڈاکٹر ناصرہ جاوید اقبال کا یہ بھی کہنا تھا کہ معلوم ذرائع آمدن سے زیادہ اثاثے رکھنے والے ارکان اسمبلی کے خلاف کاروائی کیلئے انسداد بدعنوانی ایکٹ کے تحت کوئی بھی شہری قانون کا دروازہ کھٹکھٹا سکتا ہے۔ ماضی میں کئی لوگوں کے خلاف اس طرح کی قانونی کاروائی ہو چکی ہے۔
ناصرہ جاوید اقبال کے مطابق موجودہ حکومت کی طرف سے احتسابی قوانین بنانے سے گریز، ترقیاتی فنڈز میں وسیع پیمانے پر گھپلے اور اعلیٰ حکومتی شخصیات کے مالیاتی سکینڈلز ظاہر کرتے ہیں کہ دال میں ضرور کچھ کالا ہے ۔
ادھر پاکستان کے سابق وزیر خزانہ سرتاج عزیز کے مطابق کمزور مالی حیثیت والے متحدہ مجلس عمل کے ارکان کے اسمبلیوں سے نکل جانے ، ملک میں پراپرٹی کی قیمتوں میں اضافے اور صاحب حیثیت لوگوں کے ایوان میں آنے کی وجہ سے ارکان اسمبلی کے اثاثوں میں یہ اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔ ان کے مطابق اس میں کوئی حیرانگی کی بات نہیں ہے۔
ان سارے دلائل کے باوجود عوامی حلقوں کی طرف سے یہ سوال بھی اٹھایا جا رہا ہے کہ اربوں روپے کے اثاثے رکھنے والے سیاستدانوں کی طرف سے سیلاب زدگان کی امداد کیلئے فراخ دلانہ گرم جوشی کیوں دیکھنے میں نہیں آ رہی ہے؟
رپورٹ : تنویر شہزاد ، لاہور
ادارت : افسراعوان