1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

’’پاکستانی سائنسدانوں نے مقناطیسی پاؤڈر تیار کر لیا‘

25 دسمبر 2022

پاکستانی سائنسدانوں ڈاکٹر ناصر محمود اور محمد حارث نے آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی آسٹریلیا کے ماہرین کے ساتھ مشترکہ تحقیق میں سمندری پانی سے مائیکرو پلاسٹک کے ذرات جذب کرنے کے لیے مقناطیسی پاؤڈر تیار کیا ہے۔

https://p.dw.com/p/4LNIO
Australien Magnetische Pulver gegen Microplastik
تصویر: RMIT/University Australia

آبی ذخائر میں مائیکرو پلاسٹک ذرات کی بڑھتی مقدار ایک عالمی مسئلہ ہے جس کے حل کے لیے دنیا بھر کے سائنسدان ایک عرصے سے کوشاں ہیں۔  حال ہی میں دو پاکستانی سائنسدانوں نے آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی کے ماہرین کے ساتھ مل کر مقناطیسی خاصیت رکھنے والا  ایک پاؤڈر تیارکیا ہے  جو انتہائی کم لاگت اور کم وقت میں پانی سے پلاسٹک کے خوردبینی ذرات کو کھینچ نکالنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ 

تھائی لینڈ، ڈولفن کے بچے کی صحت کی بحالی کے آثار

آپ بھی ماحول کی بہتری میں حصہ ڈالیں، ان تجاویز پر عمل کریں!

آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی آسٹریلیا کے شعبۂ کیمیکل انجینئرنگ سے وابسطہ ڈاکٹر نکی اشتیاگی نے اس تحقیق کی سرکردگی کی ہے جبکہ اسی شعبے سے وابستہ پاکستانی ڈاکٹر ناصر محمود اور پی ایچ ڈی کے طالبعلم  محمد حارث نے  تحقیق میں ان کی معاونت کی ہے۔  یہ تحقیق  چند ہفتے قبل  کیمیکل انجینئرنگ جرنل میں شائع ہوئی ہے۔

پاکستانی ماہرین کا تیار کردہ مقناطیسی پاؤڈر کیا ہے؟ 

اس تحقیق کی سربراہی کرنے والی سائنسدان  ڈاکٹر نکی اشتیاگی کا کہنا ہے کہ دنیا بھر  میں آبی ذخائر  سے پلاسٹک کے خوردبینی ذرات کو  کشید کرنے کے لیے مختلف تکنیک استعمال کی جا رہی ہیں جن میں سے بیشتر مہنگی اور وقت طلب ہیں۔  اس مقصد کے لیے جو جدید ترین فلٹر پلانٹ آج  کل  استعمال  کیے جارہے ہیں وہ  پانی میں صرف چند ملی میٹر  تک ذرات کو کشید کر سکتے ہیں۔  

ڈاکٹر نکی اشتیاگی کے مطابق ان کا  تیار کردہ مقناطیسی پاؤڈر کم خرچ اور ماحول دوست ہے  اور صرف ایک گھنٹے میں فلٹر پلانٹ سے ہزار درجے پر خوردبینی پلاسٹک کے ذرات جذب کرنے کی صلاحیت کا حامل ہے۔ اس سفوف کو اس طرح تیار ڈیزائن کیا  گیا ہے کہ فی گرام پاؤڈر کا ا ندرونی رقبہ 749.7 مربع میٹر تک  پہنچ جاتا ہے جو یقینا حیرت انگیز ہے۔

مقناطیسی پاؤڈر کو کس طرح ڈیزائن کیا گیا ہے؟

اس تحقیق میں ڈاکٹر نکی اشتیاگی کی معاونت کرنے والے پاکستانی سائنسدان ڈاکٹر ناصر محمود نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان  کی ٹیم کا تیار کردہ پاؤڈر دیکھنے میں عام سفوف جیسا ہی ہے۔ مگر حقیقت میں اس کی ساخت فیرو میگنیٹک ہے جو پتلے ستونوں کی طرح دکھائی دیتے ہیں۔ ان ستونوں کو ٹو ڈائیمینشل یا دو جہتی پرتوں پر لگایا گیا ہے، جنہیں سائنسی اصطلاح میں میٹل ''آرگینک فریم ورک ‘‘ یا ''ایم او ایف‘‘  کہا جاتا ہے۔

ڈاکٹر ناصر محمود مزید بتاتے ہیں کہ سفوف کی افادیت کو بڑھانے کے لیے  ان دونوں پرتوں کے درمیان  آئرن آکسائیڈ کے نینو ستون اس طرح کھڑے کیے گئے ہیں کہ یہ شنکجوں کا کام دیتے ہیں۔   جب ان دونوں پرتوں کے درمیان سے آلودہ پانی گزرتا ہے تو  مائیکرو پلاسٹک، بھاری دھاتیں اور دیگر آلودہ ذرات اس میں پھنس جاتے ہیں۔ 

خوراک میں مائیکرو پلاسٹک ذرات سے کیسے بچا جائے؟

یہ مقناطیسی پاؤڈر کس طرح کام کرتا ہے؟

آر ایم آئی ٹی یونیورسٹی  شعبۂ کیمیکل انجینئرنگ میں زیر تعلیم پی ایچ ڈی کے طالبعلم محمد حارث نے اپنے سینئر اساتذہ کی اس تحقیق میں معاونت کی ہے۔   انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ  ہم نے ایم او ایف اور نینو ستونوں کو ڈیزائن کرنے پر خصوصی محنت کی ہے۔  اسے ہم نے خوردبینی پیمانے پر ایک کثیر منزلہ پارکنگ کی طرح تعمیر کیا ہے جس میں جا بجا ستون چھت کو سہارا دیتے ہیں۔ 

حارث مزید بتاتے ہیں کہ جب اس سفوف کو پانی میں ملایا جاتا ہے تو  پہلے مرحلے میں یہ ایک فوم کی طرح کام کرتے ہوئے پانی میں تمام آلودگی کو جذب کر لیتا ہے۔ دوسرے مرحلے میں ایک عام مقناطیس کو اس پانی میں گھمایا جاتا ہے تو پاؤڈر  سے منسلک تمام آلودہ ذرات  مقنا طیس سے چپک جاتے ہیں۔ باریک خوردبینی ساخت کے باوجود ا س کے ستونوں کا اندرونی رقبہ کافی بڑا ہے جس میں سے پانی  با آسانی بہہ سکتاہے اور اس دوران یہ ستون مائیکرو پلاسٹک جذب کرلیتے ہیں۔

مقناطیسی سفوف کی افادیت کیا ہے؟

سمندروں میں شامل ہونے والے خوردبینی پلاسٹککے ذرات سے سمندری حیات بری طرح متاثر ہو رہی ہیں۔ ایک تحقیق کے مطابق مائیکرو پلاسٹک نگلنے  سے سبز اور زیتونی کچھووں میں جنسی توازن بگڑ گیا ہے اور زیادہ تر مادہ کچھوا جنم لے رہی ہیں۔ اسی طرح مچھلیوں کی کئی نایاب انواع معدومی کے خدشے سے دوچار ہیں۔ 

 محمد حارث نے ڈی ڈبلیو کو بتایا  کہ ان کے تیار کردہ سفوف کی ایک بڑی خصوصیت یہ ہے کہ یہ سستا اور استعمال میں آسان ہے۔ اس کے علاوہ  اس سے سمندری حیات پر بھی کوئی مضر اثرات مرتب نہیں  ہوتے۔  اس کی افا دیت کو جانچنے کے لیے مائیکرو سکوپی سمیت دیگر جدید تکنیک استعمال کی گئی ہیں۔

حارث بتاتے ہیں کہ ایک لیٹر پانی میں اگر ایک گرام مائیکرو پلاسٹک گھلا ہو تو اسے کشید کرنے کے لیے تین گرام سفوف استعمال کیا جا تا ہے جسے دوبارہ بھی استعمال کیا جاسکتا ہے۔  ان کی ٹیم نے آلودہ پانی کے نمونوں پر اس سفوف  کو بار بار آزمایا  اور ہر دفعہ سو فیصد نتائج حاصل ہوئے۔

سفوف کے  کمرشل استعمال سے متعلق کیا منصوبہ بندی ہے؟

محمد حارث نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ ان کی تحقیق کا ایک بریک تھرو پوائنٹ یہ بھی ہے کہ اس کا خام مال حیاتیاتی کچرا ہی ہے جو آلودہ پانی میں شامل ہے۔  وہ  مستقبل میں مقناطیسی سفوف کے کمرشل استعمال کے متعلق بہت پر امید ہیں۔  حارث کے مطابق اسے پیٹنٹ  کروانے کے لیے درخواست دینے کے علاوہ ان کی ٹیم آبی ذخائر پر کام کرنے والی متعدد آرگنائزیشنز اور پرائیویٹ کمپنیوں کے ساتھ رابطے میں ہے تاکہ اگلے مرحلے میں اس سفوف کو  پانی کی صفائی کے لیے کمرشل بنیادوں پر استعمال کیا جاسکے۔