1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں
اقتصادیاتپاکستان

پاکستانی حکومت رواں ماہ 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گی

14 فروری 2023

نئے ٹیکسوں کا نفاذ آئی ایم ایف سے بیل آؤٹ پیکج کی قسط کےحصول کے لیے طہ شدہ شرائط پر عمل درآمد کے سلسلے کا حصہ ہے۔ ماہرین کے مطابق نئے ٹیکسوں سے ملک میں جاری مہنگائی میں مزید اضافے سے عام افراد پر اضافی بوجھ پڑے گا۔

https://p.dw.com/p/4NSFG
Pakistans Importe bedroht, da die Devisenreserven ein Achtjahrestief erreichten
تصویر: Rizwan Tabassum/AFP

مالی بحران کے شکار پاکستان میں حکومت رواں ماہ بین الاقوامی مالیاتی ادارے  (آئی ایم ایف) سے ایک بڑا بیل آؤٹ پیکج حاصل کرنے کے لیے 170 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گی۔ حکام اور تجزیہ کاروں نے خبردار کیا ہےکہ نئے ٹیکسوں سے ملک میں بڑھتی ہوئی مہنگائی میں تیزی آ سکتی ہے۔

Pakistans Importe bedroht, da die Devisenreserven ein Achtjahrestief erreichten
ملک میں پہلے سے جاری بے تحاشہ مہنگائی کی وجہ سے آبادی کا ایک بڑا حصہ متاثر ہو رہا ہےتصویر: Rizwan Tabassum/AFP

ماہرین اقتصادیات اور سیاسی تجزیہ کاروں کی جانب سے یہ تشویش ایک اس وقت میں سامنے آئی ہے، جب  آئی ایم ایف  2019 ء میں پاکستان کے لیے منظور کیے گئے چھ بلین ڈالر کے بیل آؤٹ پیکج کی ایک ارب ڈالر سے زائد کی ایک قسط دسمبر سے روکے ہوئے ہے۔ آئی ایم ایف حکام اس تاخیر کی وجہ پاکستان کی طرف سے اس بیل آؤٹ پیکج کے لیے طہ شدہ شرائط پوری کرنے میں ناکامی کو قرار دیتے ہیں۔

 پاکستان اور آئی ایم ایف کے درمیان مذاکرات کا تازہ ترین دور جمعے کے روز فنڈ کی جانب سے نئے ٹیکس لگانے سمیت چند دیگر اقدامات کی سفارشات کے ساتھ اختتام پذیر ہوا۔

ماہر اقتصادیات احتشام الحق کے مطابق، ''مزید ٹیکسوں کے نفاذ کا مطلب ہے کہ پاکستان کے لوگوں کی اکثریت کے لیے مشکل دن آنے والے ہیں جو پہلے ہی خوراک اور توانائی کے زیادہ اخراجات کا سامنا کر رہے ہیں لیکن اگر پاکستان کو آئی ایم ایف کے قرضوں کی ضرورت ہے اور پاکستان کو اس کی اشد ضرورت ہے تو اس سے نکلنے کا کوئی دوسرا راستہ نہیں ہے۔‘‘

حکومت کے لیے دھچکا

آئی ایم ایف اور پاکستان کے درمیان مذاکرات میں تعطل کو وزیر اعظم شہباز شریف کی حکومت کے لیے ایک دھچکے کے طور پر دیکھا گیا، جو بگڑتے ہوئے معاشی بحران اور عسکریت پسندوں کی طرف سے پر تشدد کاروائیوں میں اضافے کے دوران ریاست کو دیوالیہ ہونے سے بچانے کی جدوجہد کر رہی ہے۔ پاکستان پہلے ہی اس تباہ کن سیلاب کے اثرات سے نکلنے کے لیے جدو جہد کر رہا ہے، جس میں 2022 ءکے موسم گرما میں 1,739 افراد ہلاک اور 20 لاکھ گھر تباہ ہو گئے تھے۔

جنوری میں جنیوا میں اقوام متحدہ کے تعاون سے ہونے والی ایک کانفرنس میں درجنوں ممالک اور بین الاقوامی اداروں نے پاکستان کو موسم گرما کے تباہ کن سیلاب سے بحالی اور تعمیر نو میں مدد کے لیے نو بلین ڈالر سے زیادہ کا وعدہ کیا تھا لیکن ماہرین اقتصادیات اور پاکستانی حکام کا کہنا ہے کہ یہ فنڈز نقدی کی صورت میں نہیں بلکہ منصوبوں کی شکل میں مہیا کیے جائیں گے۔

Pakistans Importe bedroht, da die Devisenreserven ein Achtjahrestief erreichten
ڈالر کے مقابلے میں روپے کی مسلسل گرتی ہوئی قدر نے پہلے ہی اشیائے خورونوش میں کئی گنا اضافہ کر رکھا ہےتصویر: Rizwan Tabassum/AFP

اس کے بعد پاکستانی وزیر خزانہ اسحاق ڈارکا کہنا تھا کہ ان کے ماہرین آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدے کی شرائط پورا کرنے کے لیے اضافی ٹیکس لگانے کے ساتھ ساتھ بجلی، گیس اور دیگر اشیاء پر سبسیڈیز کم کرنے کی تیاری کر رہے ہیں۔ احتشام الحق نے کہا کہ نئے ٹیکسوں کے نفاذ کے بعد پاکستان میں افراط زر کی شرح 26 فیصد سے بڑھ کر 40 فیصد ہو جائے گی۔ اس ماہر اقتصادیات کے بقول، ''اگر پاکستان بغیر کسی تاخیر کے آئی ایم ایف کے بیل آؤٹ کو بحال کرنے میں ناکام رہا تو عام آدمی کے لیے زندگی مزید مشکل ہو جائے گی۔‘‘

ٹیکس دہندگان پر مزید ٹیکس؟

حکام کا کہنا ہے کہ چین، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات جیسے کئی دوست ممالک نے پاکستانی حکومت کو یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ اسلام آباد کی مالی مدد کریں گے لیکن وہ بھی چاہتے ہیں کہ پاکستان 2019ء  میں آئی ایم ایف کے ساتھ طہ شدہ پروگرام مکمل کرے۔ پاکستان کے ایک سینئر سیاسی تجزیہ کار امتیاز گل کے مطابق موجودہ حکومت کا ان لوگوں پر ٹیکس بڑھانے کا امکان ہے جو پہلے ہی ٹیکس ادا کر رہے ہیں۔ انہوں نے کہا، ''ٹیکس کی بنیاد کو وسیع کرنے کی ضرورت ہے لیکن ٹیکسوں میں اضافے سے تمام ضروری اشیاء کی قیمتوں میں بھی اضافہ ہو گا۔‘‘

حکومت کا اصرار ہےکہ نئے ٹیکسوں کا نفاذ اس طرح کیا جائے گا کہ اس سے غریب لوگ متاثر نہ ہوں۔ حکومت کا یہ بھی کہنا ہے کہ نئے ٹیکس ان لوگوں پر لگائے جائیں گے جو معیشت کو بچانے کے لیے اضافی ٹیکس ادا کرنے کی استطاعت رکھتے ہیں۔ پاکستان کے زرمبادلہ کے ذخائر کم ہو کر دو ارب ڈالر سے بھی کچھ کم رہ گئے ہیں۔ یہ رقم  صرف دس دنوں کی غیرملکی درآمدات کی ادائیگی کے لیے کافی ہے۔

Pakistan | Finanzminister Ishaq Dar
وزیر خزانہ اسحاق ڈار ملکی معیشت کو سہارا دینے کے لیے اس وقت کئی محازوں پر سخت چیلنجوں کا سامنا کر رہے ہیںتصویر: Aamir Qureshi/AFP/Getty Images

حکام کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ساتھ پاکستان کے مذاکرات عملاً پیر یا منگل کے بعد دوبارہ شروع ہوں گے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے گزشتہ ہفتے خبردار کیا تھا کہ پاکستان کو آئی ایم ایف کی شرائط پر عمل کرنے میں مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا۔

دوسری جانب حزب اختلاف کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کے رہنما عمران خان خبردار کر رہے ہیں کہ گہرے ہوتے معاشی بحران کی وجہ سے پاکستان کو سری لنکا جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔ انہوں نے کھلے عام متنبہ کیا ہے کہ اگر مستقبل قریب میں پاکستان نے ڈیفالٹ کیا تو  عالمی برادری پاکستان کو ملکی ایٹمی پروگرام پر بلیک میل کر سکتی ہے۔

ش ر ⁄ ع آ ( اے پی)

پاکستان میں اسٹیل کی صنعت بھی تباہی کے دہانے پر