1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی خواتین انفلوینسرز کے بارے میں بدگمانیاں

18 مئی 2022

یہی ایک موضوع تھا اور زور و شور سے جاری تھا۔ کہیں سے جملہ آیا کہ خواتین کا سوشل میڈیا پر مشہور ہونا کون سا مشکل ہے، وہ ایک تصویر لگاتی ہیں اور بہت سے مداح ان کی ستائش کے لیے موجود ہوتے ہیں۔

https://p.dw.com/p/4BSoj
DW-Urdu Blogerin Nida Jaffri
تصویر: Privat

میرے اردگرد سوشل میڈیا استعمال کرنے والی خواتین یہ جملہ اکثر و بیشتر سنتی رہتی ہیں، جس کا پس منظر یہ ہے کہ اگر سوشل میڈیا پر خواتین موجود ہیں یا ان کے کثیر تعداد میں فالوورز موجود ہیں تو اس کی وجہ صرف ان کی تصویریں ہوتی ہیں۔

اس سوچ اور سلیکٹڈ قسم کی قبولیت کے پیچھے کئی عوامل کار فرما ہیں۔ ہمارے مین سٹریم میڈیا پر گاڑی اور گھر سے لے کر شیونگ کریم تک کے اشتہارات میں خاتون کا بطور ماڈل موجود ہونا اشتہار کی کامیابی کی علامت ہے کیونکہ خواتین کی تصویروں پر اعتراض کرنے والے سادے اور پھیکے اشتہار دیکھنا پسند نہیں کرتے۔

 سوشل میڈیا جب سے ہماری زندگی کا ایک ناگزیر حصہ بنا ہے تو یہاں بھی خواتین برابری کے ساتھ اس  پلیٹ فارم پر موجود ہیں۔ پاکستان سمیت دیگر ایشیائی ممالک میں سوشل میڈیا استعمال کرنے والی خواتین میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ شاپنگ کے معاملے میں، جہاں وہ پہلے دوسروں کی رائے کی محتاج ہوتی تھیں اب وہ پراڈکٹ کی ریٹنگ  اور دیگر صارفین کے ریویوز پڑھ کر آسانی سے شاپنگ کر لیتی ہیں۔ آن لائن شاپنگ نے کئی خواتین  کی گھر سے باہر نکلنے والی مشکل  بھی آسانی میں بدل دی ہے۔

دوسری وجہ یہ ہے کہ سوشل میڈیا نے خواتین کی کثیر تعداد کو مالی خود مختاری اور اپنی انفرادی پہچان عطا کی ہے۔ ہمارے اردگرد کتنی ہی خواتین آن لائن فوڈ بزنس، کلاتھنگ، فیشن ڈیزائنگ، جیولری، ہیلتھ، فٹنس، میک اپ اور سٹائلنگ جیسے تمام شعبوں میں گھر بیٹھے نیک نامی اور پیسہ دونوں کما رہی ہیں۔

 تیسرے حصے میں وہ خواتین ہیں، جنہوں نے سوشل میڈیا کو آزادی اظہار رائے کے لیے استعمال کیا ہے۔ وہ موضوعات، جو کہ ایک ڈیڑھ دہائی پہلے بالکل ممنوع سمجھے جاتے تھے، اب ان پر باقاعدہ مکالمہ ہوتا ہے۔ اس کی سب سے نمایاں مثال یہ ہے کہ سوشل میڈیا سے پہلے خواجہ سراؤں کے حقوق پر بات نہیں کی جاتی تھی لیکن اب باقاعدہ اس بارے میں میڈیا کمپینز چلتی ہیں۔

سوشل میڈیا نے تمام اصناف کو اپنی آواز دوسروں تک پہنچانے کا موقع فراہم کیا ہے۔ پہلی دو اقسام کی خواتین کی نسبت خواتین ایکٹوسٹ  کو ہر طرح کی مخالفت کا سامنا کرنا  پڑتا ہے۔ اس میں باڈی شیمنگ اور کردار کُشی سے لے کر گالیوں کی بوچھاڑ تک شامل ہیں۔

اکثریت کو یہ الزامات بھی سننے کو ملتے ہیں کہ  وہ کسی اور کی لکھی ہوئی تحریریں اپنے نام سے شائع کرتی ہیں یا اگر ان کی کچھ فالوونگ ہے تو اس کی وجہ ان کی تصاویر ہیں۔ ہو سکتا ہے کچھ کیسسز میں یہ اندازے درست بھی ہوں لیکن  اس سوچ کے پیچھے ہمارے سماج کی وہی بنت کارفرما ہے، جس میں خواتین کو گھر کے معاملات میں فیصلہ ساز ی کا حق  تو دور رائے دینے کا اختیار بھی نہیں ہوتا۔

خاندان کی بزرگ خواتین اپنی پوری زندگیاں تیاگ کر اس قابل ہوتی ہیں کہ گھروں میں اپنی بات منوا سکیں، اس لیے اپنے گھریلو ماحول میں قدرے چپ اور خاموش رہنے والی لڑکیاں یا عورتیں شریف اور با کردار سمجھی جاتی ہیں جبکہ سوشل میڈیا پر اپنی رائے کا اظہار کرنے والی خواتین بیباک اور بدکردار تصور کر لی جاتی ہیں۔

جو خواتین ہمارے سماج کی مردانہ سوچ کے مطابق اپنے حلیے ڈھال کر سوشل میڈیا پر موجود ہوں ان پر اعتراضات کم ہی کیے جاتے ہیں۔ جیسے کہ یوٹیوب پر موجود ایک عالمہ نقاب میں رہ کر انتہائی نجی اور تقریبا جنسی مسائل قسم کے معاملات پہ بلاتکان بولتی ہیں۔ وہاں پر یہی مجمع نا صرف واہ واہ کرتا پایا جاتا ہے بلکہ انہی خاتون سے اپنے لیے ذاتی و حکیمانہ نسخے بھی طلب کرتا پایا جاتا ہے۔

لیکن اگر آپ مردوں کی رائے کے برعکس چل رہی ہیں تو فوراﹰ سے پہلے ہی خاتون کی ذہانت، شخصیت اور کارکردگی کی نفی کر دی جاتی ہے۔ مجھے امید ہے کہ آنے والے وقت میں مرد حضرات ہم عورتوں کو ان کی ذہانت، تحریر، ان کے ٹیلنٹ اور حس مزاح کی بنیاد پر عزت اور قبولیت دیں گے۔