پاکستانی خواتین: روزگار اور مواقع
پاکستان کی آبادی میں مردوں کا تناسب اکاون فیصد اور خواتین کا تناسب انچاس فیصد ہے لیکن روزگار کی ملکی منڈی میں خواتین کی تعداد مردوں سے نصف ہے۔ پاکستان کی ملازمت پیشہ یا اپنا کوئی کام کرنے والی خواتین کے چہرے:
پہلی ٹرک ڈرائیور شمیم اختر
پیدائشی طور پر گوجرانوالہ اور آج کل راولپنڈی کی رہائشی شمیم اختر پاکستان کی پہلی ٹرک ڈرائیور خاتون ہیں۔ چون سالہ شمیم مالی مجبوریوں کی وجہ سے مال بردار ٹرک کی ڈرائیور بنیں حالانکہ اس شعبے میں ڈرائیونگ صرف مردوں کا پیشہ سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان کے چند بڑے شہروں میں خواتین ٹیکسیاں اور رکشے بھی چلاتی ہیں لیکن مرد ڈرائیوروں کے مقابلے میں ان کا تناسب انتہائی کم ہے۔
ترقیاتی شعبے میں خدمات
اسلام آباد کی رہنے والی سیدہ مجیبہ بتول گزشتہ سولہ برسوں سے ترقیاتی شعبے میں کام کر رہی ہیں۔ وہ کئی بین الاقوامی غیر حکومتی تنظیموں کے لیے کام کر چکی ہیں اور اس وقت ترقیاتی شعبے میں انتظامی امور کے ایک مشاورتی ادارے کی اعلیٰ عہدیدار ہیں۔ مجیبہ کی طرح بہت سی دیگر پاکستانی خواتین بھی غیر حکومتی ترقیاتی شعبے میں کام کرتی ہیں لیکن مردوں کے مقابلے میں اس شعبے میں بھی خواتین کی تعداد بہت کم ہے۔
سڑکوں سے کوڑے کرکٹ کی صفائی
چھپن سالہ شاہدہ شموئیل کو اسلام آباد میں سڑکوں پر صفائی کرتے برسوں گزر چکے ہیں۔ وہ اسلام آباد میں ترقیاتی امور کے نگران ادارے سی ڈی اے کی ملازمہ ہیں۔ شاہدہ کا کہنا ہے کہ ان کے آٹھ بچے ہیں جن میں سے چند شادی شدہ بھی ہیں لیکن خود شاہدہ کا مالی طور پر ان کی تنخواہ میں گزارہ مہنگائی کی وجہ سے ناممکن ہو چکا ہے۔
خواتین قیدیوں کی مدد
فوزیہ خالد ایک ماہر نفسیات ہیں، جو خواتین کی بہبود کے شعبے میں خاص طور پر ایسی عورتوں پر توجہ دیتی ہیں، جن پر پاکستانی معاشرے میں سب سے کم دھیان دیا جاتا ہے۔ فوزیہ جیلوں میں بے سہارا خواتین کی مدد کرنے والے ایک نجی فلاحی ادارے سے منسلک ہیں اور اپنا کافی وقت مختلف جیلوں، خاص کر راولپنڈی کی اڈیالہ جیل کی قیدیوں کے ساتھ گزارتی ہیں۔
خواتین کے زیر جاموں کی فروخت
سمعیہ بی بی اسلام آباد میں پشاور موڑ پر ہر اتوار بازار میں دو سال سے اپنا سٹال لگاتی ہیں اور خواتین کے زیر جامے فروخت کرتی ہیں۔ وہ یہ سامان خود پشاور سے لا کر اسلام آباد میں بیچتی ہیں۔ وہ کہتی ہیں کہ انہیں ان مردانہ نظروں پر غصہ آتا ہے، جن میں عورت کے لیے کوئی عزت نہیں ہوتی۔ سمعیہ کی طرح بہت سی پاکستانی خواتین مختلف مارکیٹوں میں کئی طرح کا سامان بیچتی ہیں۔
تعلیمی شعبے میں خدمات
شگفتہ اسد کی بچوں کے لیے تعلیم میں دلچسپی کا نتیجہ یہ ہے کہ وہ اپنے قائم کیے ہوئے سپرنگ بورڈ اسکول سسٹم کی متعدد شاخیں چلاتی ہیں۔ شگفتہ کی بنیادی ذمہ داری ایک منتظمہ کی ہے، لیکن ایک ایسے معاشرے میں جہاں اسکول جانے کی عمر کے کئی ملین بچے اسکول جاتے ہی نہیں۔ تعلیمی ادارے سرکاری ہوں یا نجی، پاکستانی تعلیمی شعبے میں خواتین کی ایک بہت بڑی تعداد کام کرتی ہے۔
ڈاکٹروں کے طور پر ناگزیر کردار
ڈاکٹر فرحت ارشد راولپنڈی میڈیکل کالج اور کئی دیگر طبی اداروں سے وابستہ زچہ و بچہ سے متعلق امراض کی ایک ماہر معالج ہیں۔ پاکستان میں بہت سے شہری طبی سہولیات سے محروم ہیں اور ملکی آبادی میں ڈاکٹروں کا مریضوں کی تعداد کے لحاظ سے تناسب بھی خوش کن نہیں۔ پاکستانی خواتین میں ڈاکٹر بننے کا رجحان کئی برسوں سے کافی زیادہ ہے۔ اکثر خواتین علاج یا معائنے کے لیے خواتین ڈاکٹروں کے پاس ہی جانا چاہتی ہیں۔
نرسنگ، ایک پسندیدہ پیشہ
کوئی ہسپتال سرکاری ہو یا نجی، شہر میں ہو یا دیہی علاقے میں، نرسنگ کے بغیر طبی شعبے کی کامیاب کارکردگی کا تصور کہیں بھی ممکن نہیں۔ پاکستانی طبی شعبے میں نرسنگ کرنے والے پیشہ ور اور تربیت یافتہ افراد میں خواتین کی تعداد ہمیشہ ہی بڑی اکثریت میں رہی ہے۔ مرد نرسوں کی تعداد ابھی بھی بہت کم ہے۔ پورے پاکستان میں کل وقتی یا جزوقتی عملے کے طور پر لاکھوں خواتین پیشہ ور نرسوں کے فرائض انجام دے رہی ہیں۔
گھریلو خواتین، نظر انداز کر دی گئی اکثریت
شبانہ حارث اسلام آباد میں رہتی ہیں، شادی سے پہلے باقاعدہ ملازمت کرتی تھیں لیکن اب دو بچوں کی والدہ ہیں اور ایک گھریلو خاتون۔ خانہ داری کرنے والی کسی بھی خاتون یا ہاوس وائف کا صبح سے شام تک جاری رہنے والا کام کسی کل وقتی ملازمت یا روزگار سے کم نہیں ہوتا۔ اس لیے ایسی خواتین معیشت اور روزگار کی ملکی منڈی میں اپنی کوئی جگہ نہیں بنا پاتیں۔
لاکھوں گھریلو ملازمائیں
پاکستانی دارالحکومت میں پانچ افراد پر مشتمل ایک گھرانے میں گھریلو ملازمہ کے طور پر کام کرنے والی بائیس سالہ ناصرہ کو ماہانہ دس ہزار روپے ملتے ہیں، جو دراصل اسے نہیں ملتے بلکہ اس کے والدین آ کر لے جاتے ہیں۔ ناصرہ اپنے آجر خاندان کے ساتھ ہی رہتی ہے۔ پاکستان میں کئی لاکھ خواتین اور نوجوان لڑکیاں ایسی ہیں جو گھریلو خادماؤں کے طور پر کام کرتی ہیں۔
فٹنس اور یوگا کی نجی تربیت
اسلام آباد کے سماجی حلقوں میں معروف فٹنس ٹرینر صنوبر نظیر خواتین کو بدلتے ہوئے معاشرتی تقاضوں سے ہم آہنگ بنانا چاہتی ہیں۔ وہ ملازمت اور بزنس پیشہ خواتین کو نجی طور پر جسمانی فٹنس اور یوگا کی تربیت دیتی ہیں۔پاکستان میں کئی ایسے شعبے ہیں، جن میں خواتین دوسری خواتین کی مدد کرتی ہیں۔ ان میں یوگا، فٹنس، پیراکی، اور انفارمیشن ٹیکنالوجی کی نجی ٹریننگ جیسے شعبے شامل ہیں۔
انٹیریئر ڈیزائننگ کے ذریعے خود انحصاری
آرٹ کے پس منظر کی حامل اور حیدرآباد سے تعلق رکھنے والی پارس محمود شاہ ایک انٹیریئر ڈیزائنر ہیں جنہوں نے ثقافتی ورثے سے اپنی محبت کے باعث گھروں اور غیر رہائشی عمارات کی اندرونی تزئین و آرائش کو اپنا پیشہ بنا رکھا ہے۔ وہ اس آرائش کے لیے ٹائلوں، دیواروں اور فرنیچر کی پینٹنگ سے کام لیتی ہیں۔ آرٹ اور ڈیزائننگ کو ملا کر جس طرح اپنا پیشہ انہوں نے بنایا ہے، ویسا بہت کم پاکستانی خواتین کرتی ہیں۔
بیوٹی پارلر چلانا بھی ایک کامیاب پیشہ
پاکستان کے ہر چھوٹے بڑے شہر میں ہزارہا خواتین نے اپنے میک اپ سیلون اور بیوٹی پارلر کھول رکھے ہیں، شادیوں پر دلہنوں کا خطیر رقوم دے کر پارلر سے میک اپ کروانا ایک روایت بن چکا ہے۔ اس طرح بہت سے ایسی خواتین کے لیے بھی، جو اعلیٰ تعلیم یافتہ یا کسی سائنسی پیشے کی ماہر نہیں بھی ہوتیں، اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کا ایک نیا اور کامیاب رستہ کھل چکا ہے۔
زرعی شعبے میں خواتین کا حصہ
ایک نیم دیہی علاقے میں مویشیوں کے لیے گھاس کاٹنے والی یہ خواتین پاکستان کی ان کئی ملین خواتین کے کردار کی علامت ہیں، جو دیہی علاقوں میں زرعی شعبے کے لیے انتہائی اہمیت کی حامل ہیں۔ پاکستان کی قریب 65 فیصد آبادی دیہی یا نیم دیہی علاقوں میں رہتی ہے۔ پاکستانی معیشت زیادہ تر ایک زرعی معیشت ہے، جس میں خواتین کھیتوں میں مردوں کے شانہ بشانہ کام کرتی ہیں۔