پاکستانی خواتین کو خلع لینے کی مجبوری آخر کیوں ہے؟
15 ستمبر 2022پاکستان کے قدامت پسند معاشرے میں طلاق کو ایک پیچیدہ اور ممنوع عمل سمجھا جاتا ہے لیکن اس کے باوجود زیادہ خواتین اپنی شادیاں ختم کرنے کا انتخاب کر رہی ہیں۔ خلع کا استعمال ان دنوں تیزی سے بڑھ رہا ہے جو اسلامی قانون کے تحت کسی عورت کو اپنی مرضی سے اپنے شوہر سے علیحدگی کا اختیار دیتا ہے۔
شادی یا پارٹنر شپ، ملالہ کے بیان پر تنقید کا طوفان
خواتین کے حقوق کے لیے سرگرم کارکنوں کا کہنا ہے کہ اس نئے رجحان میں اضافے کا سبب یہ ہے کہ اس اسلامی مملکت کے پدرسری معاشرے میں خواتین اب زیادہ بااختیار ہو رہی ہیں اور ناپسندیدہ شادیوں کو برقرار رکھنے کی مجبوری کم سے کم تر ہو رہی ہے۔
پاکستان میں طلاق کے معاملات کی نگرانی کے لیے کوئی متعین ادارہ نہیں ہے اور بالعموم اسلامی شریعت کے مطابق ان پر عمل کیا جاتا ہے۔
ملک میں کوئی عورت ''طلاق کے لیے عرضی‘‘ داخل نہیں کرسکتی تاہم اسلامی شریعت نے اسے شوہر کی مرضی کے بغیر بھی شادی ختم کرنے کا حق دیا ہے، جسے خلع کہا جاتا ہے۔ یہ کسی ثالثی یا فیملی کورٹ کے ذریعہ انجام پاتا ہے۔
اسلامی شریعت کی رو سے کوئی عورت مختلف اسباب کی بنا پر خلع لے سکتی ہے، جس میں شوہر کی بدسلوکی، اس کی ذہنی حالت یا اسے معلق چھوڑ دینا وغیرہ شامل ہیں۔
حالانکہ اپنی شادیاں ختم کرنے کے لیے خلع لینے والی خواتین کی سرکاری تعداد معلوم نہیں ہے تاہم خلع لینے کی شرح میں اضافہ ہوا ہے۔
گیلپ اور گیلانی پاکستان کی جانب سے سن 2019 میں کرائے گئے ایک سروے کے مطابق 58 فیصد پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ملک میں طلاق کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ سروے میں حصہ لینے والے ہر پانچ میں سے دو افراد کا خیال تھا کہ طلاق کے بیشتر معاملات کے لیے میاں بیوی کے سسرال والے ذمہ دار ہوتے ہیں۔
پاکستانی خواتین زیادہ خود مختاری چاہتی ہیں
لاہور سے سرگرم انسانی حقوق کی تنظیم ہیومن رائٹس پروٹیکشن سینٹر سے وابستہ وکیل عاتکہ حسن رضا نے ڈی ڈبلیو سے با ت چیت کرتے ہوئے کہا کہ زیادہ تر عورتیں خلع لینا چاہتی ہیں۔ پاکستان میں طلاق کے بیشتر معاملات شوہر کی جانب سے شروع کیے جاتے ہیں جس میں خلع کے برخلاف شوہر کی رضامندی لازمی ہے۔
عاتکہ کا کہنا تھا کہ خلع اور سرپرستی جیسے معاملات کو حل کرنے کے لیے مزید فیملی کورٹس یا دارالقضاء قائم کیے جارہے ہیں اور ان میں قاضیوں کی تعداد میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔
عاتکہ حسن کا خیال ہے کہ بیشتر خواتین اس بات سے آگاہ ہیں کہ جسمانی استحصال بشمول نفسیاتی استحصال کے علاوہ بھی دیگر اسباب مثلاً یہ کہ 'شادی سے انہیں کچھ حاصل نہیں ہورہا ہے،‘ کی بنا پربھی وہ نکاح فسخ کرا سکتی ہیں۔ انہوں نے کہا،''خواتین کو اپنے حقوق کا علم ہے اور وہ زیادہ خود مختار ہیں۔‘‘
خواتین ڈیٹنگ ایپس پر اپنا معیار نہ گرائیں
وجود زن سے ہے کردار کشی میں رنگ
شاذیہ(تبدیل شدہ نام)، دو بچوں کی ماں ہے۔ انہوں نے گزشتہ برس اپنی مصیبت زدہ ازدواجی زندگی سے نجات حاصل کرلی تھی۔41 سالہ شاذیہ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،''میں زیادہ پڑھی لکھی نہیں ہوں اور مجھے کام کا بھی کوئی تجربہ نہیں تھا لیکن مجھے کھانا پکانے میں مہارت حاصل ہے۔ جیسے ہی میرا کھانا پکانے کا کام چل نکلا میں نے محسوس کیا کہ میں مالی طور پر خودمختار ہو سکتی ہوں۔ میں ذہنی طور پر بھی اتنی خود مختار ہوگئی کہ میں نے بالآخر خلع لینے کا فیصلہ کرلیا۔‘‘
پاکستانی سیاست اور خواتین سیاست دانوں کی کردار کُشی
شاذیہ اب اپنی کفالت خود کرنے کی اہل ہیں۔ تاہم اپنے بیٹوں کی جس انداز میں پرورش کرنا چاہتی ہیں وہ بہر حال مشکل ہے۔ حالانکہ بچوں کی کفالت کے حوالے سے اسلامی قانون بالکل واضح ہیں لیکن یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ شاذیہ کی طرح بیشتر خواتین کو اپنے سابق شوہروں سے کوئی پیسے نہیں ملتے۔
پاکستان کا شادی کلچر
پاکستان میں پسند کی شادیوں کو ''لو میرج‘‘ کہا جاتا ہے تاہم یہاں والدین یا رشتہ داروں کے ذریعہ طے کرائی گئی شادیاں عام ہیں۔ شادی سے قبل نکاح نامہ، جو ایک طرح کا معاہدہ ہے،پر دستخط کرنا بھی عام بات ہے۔
33 سالہ کمال ایک مارکیٹنگ مینیجر ہیں۔ سن 2018 میں ان کی شادی ہوئی تھی۔ تاہم حال ہی میں انہوں نے یہ کہتے ہوئے طلاق کے لیے درخواست دی ہے کہ بیوی کے ساتھ مزاج میں ''ہم آہنگی‘‘ پیدا نہیں ہوسکی۔ حالانکہ شادی سے قبل انہوں نے اپنی منگیتر کے ساتھ ڈیٹنگ بھی کی تھی۔
خاندانی منصوبہ بندی کے طریقے اور پاکستانیوں کے روایتی، مذہبی اور ثقافتی رجحانات
غیر ازدواجی تعلقات اب سب کی دسترس میں
انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے کہا،''مغرب کے برعکس جہاں لوگ بالعموم شادی سے قبل بھی قریبی ریلیشن رکھتے ہیں، یہاں آپ ایسا نہیں کرسکتے۔‘‘
انہوں نے مزید کہا کہ ''حالانکہ تکنیکی لحاظ سے ہماری شادی کو ایک برس ہوچکے ہیں لیکن ہم تکنیکی طورپر صرف ڈیٹنگ ہی کررہے تھے کیونکہ ہمیں ساتھ رہنے کا موقع نہیں مل سکا تھا اور جب ہم نے ایک دوسرے کے ساتھ رہنا شروع کیا تو اختلافات سامنے آئے۔‘‘
مومن علی خان پیشے سے وکیل ہیں جو بالعموم فیملی کیسز دیکھتے ہیں۔ انہوں نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ اعلیٰ تعلیم یافتہ یا مالدار خاندان سے تعلق رکھنے والی خواتین اس وقت خلع کی درخواست دیتی ہیں جب شادی کو برقرار رکھنا مشکل ہوجاتا ہے۔ حالانکہ ایسا کرنے سے انہیں شوہر سے حاصل ہونے والی چیزیں واپس لوٹانی پڑتی ہیں اور انہیں مالی نقصان بھی اٹھانا پڑتا ہے۔
’افغان لڑکیوں کو جبری شادی کے لیے پاکستانی نوجوانوں کے حوالے کیا جا رہا ہے‘
پاکستانی مرد عورت مارچ سے خوف زدہ کیوں ہیں؟
مومن خان کا کہنا تھا کہ دیہی علاقوں یا غریب خاندان سے تعلق رکھنے والی ایسے خواتین کے لیے خلع کا فیصلہ کرنا زیادہ مشکل ہوتا ہے کیونکہ مالی دشواریاں اور مسائل ان کے سامنے ہوتے ہیں اور مالی امداد سے دست بردار ہونا ان کے لیے خاصا مشکل ہوتا ہے۔
ہانیہ(تبدیل شدہ نام) اسلام آباد میں ایک ملازمت پیشہ خاندان سے تعلق رکھتی ہیں۔ انہوں نے بیچلر کی ڈگری حاصل کی ہے اور اچھی تنخواہ والی ملازمت کی خواہش مند ہیں۔ ان کی شادی اپنے کزن کے ساتھ طے کر دی گئی لیکن والدین کی خواہش کے باوجود وہ شادی نہیں کرنا چاہتی تھیں۔
شادی کے بعد 23 سالہ ہانیہ کی جس روز اپنے گھر سے اپنے شوہر کے گاؤں کے لیے رخصتی ہونی تھی، وہ فرار ہوگئیں۔ لیکن چونکہ نکاح ہوچکا تھا اس لیے انہیں خلع کے لیے درخواست دینا پڑی۔
پاکستان کے دیہی علاقوں میں طلاق یا خلع ممنوع اور شرم کی بات سمجھی جاتی ہے۔ ایسے میں ہانیہ کو ان کے خاندان والوں نے عاق کر دیا۔
لڑکیوں کی جسامت اور معاشرے کے طے کردہ معیارات کا مسئلہ
مرد اور عورت کے حقوق کی جنگ کب تک؟
ہانیہ نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت کرتے ہوئے کہا،اگر وہ گاؤں واپس جاتی ہیں تو ان کی جان کو خطرہ لاحق ہو سکتا تھا۔‘‘ ہانیہ نے اب 'لو میرج‘ کرلی ہے اور اسلام آباد میں اپنے شوہر اور ان کے کنبے کے ساتھ رہ رہی ہیں۔
ج ا/ ک م (بی ماری، پاکستان)