پاکستانی روپے کی قدر میں کمی، مہنگائی کے طوفان کی دستک
23 اکتوبر 2021پاکستانی روپے کی قدر میں مسلسل کمی اور اس کے نتیجے میں ہونے والی مہنگائی پر اپوزیشن جماعتیں حکومت کی معاشی پالیسیوں کو آڑے ہاتھوں لے رہی ہیں۔ پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کی جانب سے ملک بھر میں احتجاجی مظاہرے کیے جا رہے ہیں۔ تاہم دوسری جانب حکومت کی معاشی ٹیم کا کہنا ہے کہ مہنگائی کی وجہ عالمی اجناس کی قیمتوں میں ہونے والا اضافہ ہے۔ گورنر اسٹیٹ بینک ڈاکٹر رضا باقر بھی بار بار دہراتے ہیں کہ ایکس چینجچ ریٹ مارکیٹ کے مطابق ہے۔
پاکستان کی انٹربینک مارکیٹ میں ایک امریکی ڈالر کی قدر ایک سو چوہتر روپے کے برابر ہے، جبکہ اوپن مارکیٹ سے ڈالر با مشکل ایک سو پچہتر روپے میں دستیاب ہے۔ اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے حال ہی میں کرنسی کا کاروبار کرنے والی کمپنیوں کو پابند کیا ہے کہ پانچ سو ڈالر کی خرید وفروخت کے وقت بایومیٹرک تصدیق لازمی کی جائے۔
ایکس چینج کمپنیز ایسوسی ایشن کے سیکریٹری جنرل ظفر پراچہ نے ڈوئچے ویلے سے بات چیت میں کہا کہ افغانستان کی صورتحال بھی معیشت پر انداز ہو رہی ہے، ''موجودہ صورتحال میں ہمیں تمام حقائق کو مدنظر رکھ کر فیصلے کرنا ہوں گے۔ ڈالر کی قیمت میں اضافے کی وجہ درآمدی بل میں اضافہ ہے۔ یہ وقتی صورتحال ہے، پریشانی کی کوئی بات نہیں، لیکن حکومت کو چاہیے کہ انٹر بینک مارکیٹ میں امریکی ڈالر کی قیمت کو کنٹرول کرے۔''
پاکستان میں عام طور پر امریکی ڈالر کی قیمت میں اضافے کو مہنگائی بڑھنے سے تعبیر کیا جاتا ہے، اسی لیے عام آدمی اس وقت سب سے زیادہ پریشان ہے۔ کاشف حسین مقامی نجی ادارے میں معقول تنخواہ پر ملازم ہیں، لیکن بڑھتی ہوئی مہنگائی سے وہ بھی خاصے پریشان ہیں۔ ان کا کہنا ہے،''ہماری آمدنی میں اضافہ نہیں ہو رہا، آپ آٹا، چینی، دالیں، گھی، تیل، سبزی، دودھ بلکہ ہر چیز ہی دیکھ لیں، کون سی ایسی چیز ہے جو سستی ہو، بازار جاؤ تو دکاندار نئے دام بتاتے ہیں، کہتے ہیں کہ ڈالر مہنگا ہو گیا ہے، نیا مال مہنگا آ رہا ہے، اب بتائیں ایسے میں ہم ملازمت پیشہ لوگ کیا کریں۔''
پاکستان کی معیشت کی شرح نمو چار فیصد رہے گی
آئی ایم ایف سے ’کامیاب مذاکرات‘، کیا مہنگائی مزید بڑھے گی؟
دوسری جانب اقتصادی ماہرین موجودہ صورتحال سے خائف تو ہیں لیکن پریشان نہیں۔ معاشی امور کے ماہر شہروز لودھی نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا کہ کورونا کیسز میں کمی کے بعد پاکستان سمیت دنیا بھر میں معاشی سرگرمیاں بحال ہو رہی ہیں، جس کی وجہ سے مختلف اشیا کی طلب بڑھ رہی ہے، طلب بڑھنے کے نتیجے میں درآمدات بڑھ رہی ہیں، جس سے روپے پر دباؤ ہے، کیونکہ درآمد کنندہ درآمدی مال کے لیے لیٹر آف کریڈٹ کھول رہے ہیں، انہیں ڈالر کی ضرورت ہے اور مارکیٹ میں ڈالر کی طلب بڑھ رہی ہے، جس کی وجہ سے اس کی قیمت بھی بڑھ رہی ہے۔
شہروز لودھی نے مزید کہا،'' بین الاقوامی مارکیٹ میں خام تیل، گیس، کوئلے، گندم سمیت بیشتر اجناس کی قیمتیں مسلسل بڑھ رہی ہیں، اس لیے جب آپ مہنگی اشیا درآمد کریں گے تو ظاہر ہے زیادہ ڈالر خرچ ہوں گے، جب مہنگی اشیا یہاں آئیں گی تو یہاں بھی مہنگائی بڑھے گی۔''
انھوں نے مزید کہا، ''ڈالر کی قیمت میں استحکام اسی وقت ممکن ہے کہ جب پاکستان کی برآمدات میں اضافہ ہو، درآمدات میں کمی ہو، لگژری گاڑیوں سمیت تمام غیرضروری اشیا کی درآمد پر ڈیوٹی میں اضافہ کردیا جاٸے تاکہ بے جا درآمدات کا سلسلہ کم ہو، گوکہ اسٹیٹ بینک نے حال ہی میں 114 اشیاء کی درآمد پر سو فیصد کیش مارجن کی شرط عاٸد کی ہے، لیکن یہ کافی نہیں، وزارت تجارت کو بھی اقدامات کرنا ہوں گے۔''
وفاق میں اپوزیشن جماعت اور سندھ میں برسر اقتدار جماعت پاکستان پپلز پارٹی نے بھی کراچی میں مہنگائی کے خلاف احتجاج کیا، جس میں وزیر اعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ بھی شریک ہوئے۔ سندھ حکومت کے ترجمان بیرسٹر مرتضیٰ وہاب نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ''لغت میں لفظ مہنگائی کی جگہ وزیراعظم کا نام لکھ دینا چاہیے،جب سے یہ حکومت آئی ہے، غریب آدمی کے لیے زندہ رہنا مشکل ہو گیا ہے، کبھی آٹا مہنگا ہوتا ہے تو چینی، پیٹرول کے دام بڑھتے ہیں تو بجلی بھی مہنگی کر دی جاتی ہے، اور اب تو رہی سہی کسر ڈالر کو آسمان پر پہنچا کر پوری کی جارہی ہے۔''
رواں ماہ اکتوبر کے دوران اب تک انٹربینک مارکیٹ میں 3.53 روپے اضافہ ریکارڈ کیا گیا، یکم اکتوبر کو ایکس چینج ریٹ 170.47روپے تھا، دوسری جانب رواں مالی سال امریکی کرنسی کی قیمت تقریبا 17 روپے اضافے سے 174 روپے کی بلند ترین سطح پر موجود ہے۔
وفاقی ادارہ شماریات کے مطابق ملک میں ایک ہفتے کے دوران مہنگائی کی شرح میں 1.38فیصد اضافہ ہوا، جس کے بعد یہ شرح 14.48فیصد پر پہنچ چکی ہے۔ وفاقی وزیر اطلاعات فواد چوہدری نے کہنا ہے کہ حکومت جلد آٹا، چینی، دال اور گھی پر بڑا ریلیف دینے جا رہی ہے۔