پاکستانی سفیروں کی مجوزہ کانفرنس، ٹرمپ کی جنوبی ایشیا پالیسی
4 ستمبر 2017امریکہ، روس، چین ، ایران، سعودی عرب، ترکی، برطانیہ اور بیلجیئم سمیت کئی اہم ممالک میں متعین پاکستانی سفیراس کانفرنس میں شرکت کریں گے۔ مبصرین کے مطابق اس کانفرنس میں افغانستان اور امریکی پالیسی برائے جنوبی ایشیاء مرکزِ بحث رہے گی۔
دفترِ خارجہ کے ایک اہم عہدیدار نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر بتایا، ’’اس طرح کی کانفرنسوں میں خارجہ پالیسی کی ترجیحات کو زیرِ بحث لایا جاتا ہے اور علاقائی و بین الاقوامی منظر نامے پر تفصیل سے بحث کی جاتی ہے۔کانفرنس کے ابتدائی سیشن میں خواجہ آصف خطاب کریں گے اور اختتامی سیشن میں وزیرِ اعظم شاہد خاقان عباسی خطاب کریں گے۔‘‘
معروف تجزیہ نگار لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے اس کانفرنس کے انعقاد کے حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا،’’میرے خیا ل سے کانفرنس میں سب سے اہم نکتہ جنوبی ایشیاء کے لئے امریکی پالیسی ہوگی اور اس میں امریکہ کی طرف سے آنے والے سخت بیانات اور الزامات زیرِ بحث آئیں گے۔ میرے خیال میں اس بات پر بحث کی جائے گی کہ امریکہ کے خطے میں مقاصد کیا ہیں اور پھر ان مقاصد کی روشنی میں ہی سفیر اپنی تجاویز پیش کریں گے۔‘‘
پاک امریکا تعلقات میں تناؤ برقرار
واشنگٹن اور اسلام آباد کے درمیان درجہٴ حرارت بڑھنے کا امکان
ٹرمپ کے بیان نے پاکستانیوں کو تکلیف پہنچائی، عمران خان
پاکستان نے بڑی قربانیاں دی ہیں: ٹرمپ کی تنقید پر چین کا جواب
ایک سوال کے جواب میں لیفٹیننٹ جنرل ریٹائرڈ امجد شعیب نے دعویٰ کیا، ’’امریکا خطے میں استحکام نہیں چاہتا، امکان ہے کہ یہ کانفرنس افغانستان کے مسئلے کو حل کرنے کے لیے خطے کے ممالک کو اعتماد میں لینے کی بات کرے گی کیونکہ یہ ممالک سمجھتے ہیں کہ امریکا افغانستان میں استحکام نہیں چاہتا اور وہ وہاں اپنی موجودگی بر قرار رکھنا چاہتا ہے تاکہ ایران، چین، روس اور وسطی ایشیا پر نظر رکھی جا سکے۔‘‘
سابق سفیر برائے ایران فوزیہ نسرین نے اس حوالے سے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’میرے خیال میں کانفرنس کوئی سخت موقف نہیں اپنائے گی کیونکہ پاکستان پہلے ہی سخت نکتہ نظر کا اظہار کر چکا ہے، پاکستان کہے گا کہ اگر آپ کے پاس کوئی ثبوت ہیں حقانی نیٹ ورک کے حوالے سے تو ہمیں دیں اور ہم ان کے خلاف کارروائی کریں گے، لیکن پاکستان اپنے اس موقف کا اعادہ بھی کرے گا کہ ایسا کوئی نیٹ ورک اب پاکستانی سرزمین پر نہیں ہے بلکہ ٹی ٹی پی والے افغانستان کی سرزمین، پاکستان کو غیر مستحکم کرنے کے لئے استعمال کر رہے ہیں۔‘‘
سابق سفیر فوزیہ نسرین کہنا تھا کہ ایران اور سعودی تعلقات کو بھی اس کانفرنس میں زیرِ بحث لایا جائے گا۔ ’’پاکستان کے لئے یہ بہت ضروری ہے کہ ایران اور سعودی عرب کے درمیان تعلقات میں ایک توازن قائم ہوکیونکہ دونوں ممالک پاکستان کی خارجہ پالیسی کے نقطہٴ نظر سے انتہائی اہم ہیں۔‘‘
دفاعی تجزیہ نگار میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے اس کانفرنس کے حوالے سے ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’میرے خیال میں پاکستان امریکی الزامات سے بہت زیادہ ناراض ہے ۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کو اس بات پر بھی تشویش ہے کہ واشنگٹن بھارت کو افغانستان میں کوئی کردار دینا چاہتا ہے۔ ممکنہ طور پر وہ کردار کیا ہو سکتا ہے اور اس کے پاکستان پر کیا اثرات ہوں گے۔ یہ وہ سوالات ہیں، جن پر یقیناًاس کانفرنس میں بات چیت ہوگی۔ اس کے علاوہ ٹرمپ کے الزامات کو بھی زیرِ بحث لایا جائے گا۔ پاکستان یہ کہہ گا کہ حقانی نیٹ ورک کا ہماری سرزمین پر کوئی وجود نہیں۔‘‘
ایک سوال کے جواب میں میجر جنرل ریٹائرڈ اعجاز اعوان نے کہا، ’’افغانستان میں سرحد پار حملوں کو روکنے کا بہترین حل یہ ہے کہ باڈر پر باڑ لگا دی جائے۔ پاکستان کا موقف باڑ کے مسئلے پر بڑا واضح ہے اور میر ے خیال میں اس کانفرنس کو اس مسئلے پر بات چیت کرنی چاہیے اور بین الاقوامی برادری کو بتانا چاہیے کہ خطے میں امن کے لئے یہ باڑ اور باڈر کی موثر نگرانی بہت ضروری ہے۔