1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی سیاست میں درآمد شدہ کرداروں کا پتلی تماشہ

24 جنوری 2021

بچپن میں ہمارے آبائی شہر لاڑکانہ اور اس کے گرد و نواح میں کوئی میلہ لگتا یا کوئی دوسرا تہوار ہوتا تو پتلی تماشہ سجتا تھا۔ صدیوں پرانی مومل رانڑو، عمر ماروی اور اکبر بادشاہ جیسے مقامی کرداروں کی لوک کہانیاں ہوتیں۔

https://p.dw.com/p/3oLv1
Pakistan | DW Urdu Blogger | Owais Tohid
تصویر: privat

لیکن بدلتے وقت کے ساتھ ساتھ ان روایتی کہانیوں میں غیر ملکی ٹی وی سیریز کے کردار بھی آنے لگے، سکس ملین ڈالر مین یا جوڈو کراٹے والے چیمپین بروسلی کی پتلیاں بھی کھیل تماشے میں شامل ہونے لگیں۔ اب مجھے پاکستان کا سیاسی کھیل بھی اکثر اپنے بچپن کے پتلی تماشے کی طرح لگتا ہے۔ جہاں اس کی تاریخ میں شریف خاندان، بھٹو خاندان، اقتدار کے سیاسی نشیب و فراز، فوجی انقلاب، مداخلتوں اور سانحات کی کہانیاں رقم ہیں، وہاں گاہے بگاہے غیر ملکی پتلیوں کا پراسرار کردار بھی حیران کن ہے۔

میموگیٹ اسکینڈل کے امریکی نژاد پاکستانی منصور اعجاز ہوں یا ورلڈ بنک سے لائے گئے نگراں وزیر اعظم معین قریشی یا جنرل مشرف دور میں وزیر اعظم بنائے جانے والے شوکت عزیز۔ کہا جاتا ہے کہ معین قریشی اور شوکت عزیز کے شناختی کارڈ بھی عہدے نوازنے سے کچھ دن قبل بنوائے گئے۔

ایسا محسوس ہوتا ہے، جیسے یہ کردار ہماری سیاسی زمین پر کسی اور سیارے سے آنے والی اڑن طشتری سے اتاری گئی مخلوق ہوں۔ ان دنوں ایک ایسا ہی کردار ہر ٹی وی اسکرین، اخبار انگریزی ہو یا اردو، شہ سرخیوں کی زینت بنا ہوا ہے۔ 

موسوی صاحب، پورا نام کاوے موسوی۔ سرخ سفید رنگت، ایرانی نژاد برطانوی انگریزی میں گفتگو کرتے نظر آتے ہیں۔ بیک وقت تین چار ٹی وی چینلز پر ان کے خصوصی انٹرویو نشر ہو رہے ہیں۔

قصہ براڈ شیٹ اسکینڈل کا ہے، جس کی جڑیں جنرل مشرف کے دور سے ملتی ہیں۔ سیاسی حریفوں کے احتساب کے لیے مذکورہ کردار کی فرم کی خدمات حاصل کی گئی تھیں۔ موصوف کی فرم نے اس دور کے ہرجانے کا برطانوی عدالت سے مقدمہ جیتا اور عمران خان کی موجودہ حکومت سے انتیس ملین ڈالر کی خطیر رقم حاصل کی ہے۔

ملکی سیاست میں واویلا مچا ہوا ہے۔ 

موسوی صاحب کی طرف سے نہ ختم ہونے والے الزامات کی بوچھاڑ ہے۔ ان الزامات کا آغاز شریف خاندان سے ہوا، پھر حکومت میں احتساب کے ذمہ دار بیرسٹر شہزاد اکبر اور ایک جرنیل پر مبینہ طور پر کمیشن لینے کے الزامات ہیں۔ فارن فنڈنگ کیس اور اب براڈ شیٹ اسکینڈل کے سنسنی خیز الزامات کے بادلوں نے اپوزیشن کی دم توڑتی حکومت مخالف تحریک اور اسٹیبلشمنٹ مخالف بیانیے کو فی الوقت گرہن لگا دیا ہے۔ 

براڈ شیٹ اسکینڈل کو سیاسی چارج شیٹ اور فراڈ شیٹ کے ناموں سے پکارا جا رہا ہے۔ شیخ رشید اور حکومتی وزراء اسے پانامہ ٹو قرار دے رہے ہیں، پرائم ٹائم شوز میں میڈیا عدالتیں سجی ہوئی ہیں۔

کچھ ایسا ہی ماحول ہمیں زرداری صاحب کی سابقہ حکومت میں نظر آیا تھا۔ جب میموگیٹ اسکینڈل اور امریکی کردار منصور اعجاز منظر عام پر لائے گئے تھے۔ اسامہ بن لادن کی ایبٹ آباد کے "خفیہ” آپریشن میں امریکیوں کے ہاتھوں ہلاکت کے بعد جہاں اسٹیبلشمنٹ اور اوباما انتظامیہ کے درمیان سخت کشیدگی تھی، وہاں پنڈی اور اسلام آباد کے مابین بھی تعلقات میں سرد مہری تھی۔

انہی دنوں میموگیٹ اسکینڈل سامنے آیا اور منصور اعجاز کا کا کردار بھی۔ سیاسی طوفان کھڑا ہو گیا۔ اسکینڈل کا قصہ امریکا میں پاکستانی سفیر حسین حقانی کے گرد گھومتا ہے، الزام لگایا گیا کہ انہوں نے امریکا کی اسٹیبلشمنٹ کے کرداروں کو پیغام بھیجا ہےکہ فوج ایبٹ آباد آپریشن کے بعد پاکستانی حکومت سے ناراض ہے اور تختہ الٹنے کا منصوبہ رکھتی ہے۔ پیغام رسانی بظاہر منصور اعجاز نے انجام دی اور وہ حقانی اور حکومت کے خلاف بطور گواہ پیش ہوئے۔ 

پاکستانی عدلیہ کی تاریخ میں پہلی مرتبہ ویڈیو لنک کے ذریعے منصور اعجاز کا بیان ریکارڈ کیا گیا۔ 

منصور اعجاز سابق امریکی صدر بل کلنٹن کے ساتھی اور امریکی اسٹیبلشمنٹ کیساتھ قریبی تعلقات کی وجہ سے مشہور تھے۔ انہوں نے نوے کی دہائی میں امریکا اور سوڈان کے مابین تعلقات کی بحالی میں ثالث کا کردار ادا کیا تھا، جس کے نتیجے میں امریکی حساس اداروں نے سوڈان میں موجود اسامہ اور القاعدہ کے نیٹ ورک کی بابت قیمتی معلومات حاصل کی تھیں۔

منصور اعجاز نے اسکینڈل کے حوالے سے اپنی اور اس وقت کے آئی ایس آئی کے سربراہ جنرل شجاع پاشا کے درمیان لندن میں ملاقات کا بھی ذکر کیا۔ اور پھر میڈیا میں الزامات بھرا بیان بھی داغ دیا کہ جنرل شجاع پاشا نے عرب رہنماوں سے حکومت کا تختہ الٹنے کے لیے مشاورت بھی کی ہے۔ ان الزامات کو مسترد کرتے ہوئے بے بنیاد گردانا گیا۔

بالآخر منصور اعجاز کے بیان کے بعد عدالتی کمیشن کی سفارشات آئیں اور حسین حقانی کو بطور سفیر اپنی ملازمت سے ہاتھ دھونا پڑا۔ اس سے قبل جنرل مشرف کے دور میں غیر معروف انویسمنٹ بینکر شوکت عزیز کا کردار پاکستانی سیاست میں متعارف ہوا۔ 

مشرف کے فوجی انقلاب کے بعد حکومت کے پاس خزانے میں چند سو ملین ڈالر تھے، فنڈز کی اشد ضرورت تھی۔ خزانے کو تقویت دینے کے لیے فنانس کے ماہر کی ضرورت تھی۔ ان دنوں اسلام آباد میں مقیم ہوٹلوں کی چین کے مالک، جنہیں سیاسی اور صحافتی حلقوں میں ایک "پیشہ ور میزبان” کی حیثیت سے جانا جاتا تھا، نے مشورہ دیا کہ شوکت عزیز ہیں، جو عرب شہزادوں سے لے کر پاکستانی سیاستدانوں کی جیبوں کے وزن تک سے واقف ہیں۔ 

انویسمنٹ بھی لا سکتے ہیں اور مشرف صاحب کے سیاسی حریفوں یا ماضی کے حکمرانوں کی "لوٹی” ہوئی رقم کی وطن واپسی میں مدد گار بھی ثابت ہو سکتے ہیں۔ براڈ شیٹ کے ساتھ معاہدہ ان ہی دنوں میں ہوا تھا، جس کے اہم کردار موسوی صاحب ان دنوں سرگرم ہیں۔

شوکت عزیز، جو اُس وقت ایک انٹرنیشنل بنک میں ملازمت کر رہے تھے، کو بلایا گیا۔ پہلے انہیں وزیر خزانہ بنایا اور پھر وزیر اعظم کا عہدہ سونپا گیا۔ ان کے دور میں ملک کی تاریخ کا سب سے بڑا اسٹاک ایکسچینج  اسکینڈل شروع ہوا۔  متنازعہ نجکاری کا منصوبہ ہو یا اس وقت سپریم کورٹ کے چیف جسٹس افتخار چوہدری کے خلاف جنرل مشرف کو ریفرنس دائر کرنے کی سفارش، یہ انہی کے مشورے تھے۔ یہی اسکینڈل بالآخر مشرف دور کے خاتمے کا اہم سبب بنے۔ لیکن شوکت عزیز صاحب کے اعمال کا کوئی احتساب نہیں، ان کی پاکستانی سیاست میں جیسی پراسرار آمد ہوئی تھی، ویسے ہی واپسی ہوئی۔

موسوی ہوں یا منصور اعجاز یا پھر شوکت عزیز یا امریکی خاتون سنتھیارچی ان جیسے کرداروں سے عارضی طور پر سیاسی فوائد حاصل کیے جا سکتے ہیں لیکن طویل المدتی طور پر یہ ملک کے سیاسی نظام کو داغدار ہی کرتے ہیں۔

 ضروری یہ ہےکہ ملک کے عدالتی نظام اور احتسابی میکینزم میں بہتری لائی جائے، عوام کا اداروں پر اعتماد بحال کیا جائے نہ کہ ان غیر ملکی کرداروں سے ٹی وی چینلز اور میڈیا کے ذریعے سیاسی پتلی تماشہ سجایا جائے۔

چند برس قبل میں ایک جنرل صاحب کے صاحبزادے کی شادی میں اپنے سینیر صحافی ساتھیوں اور اینکرز کیساتھ مدعو تھا۔ تقریب میں میزبان جنرل نے اس وقت کے آرمی چیف جنرل راحیل شریف اور ان کی اہلیہ سے تعارف کرایا۔ راحیل شریف صاحب کی اہلیہ نے بہت مہذب اور سلیقے سے انگریزی میں  ہم سےکہا کہ وہ ہمارے  ٹی وی پروگرامز سے بہت "انٹرٹین” یعنی محظوظ ہوتی ہیں۔ تقریب کے بعد جب میں گھر لوٹ رہا تھا تو اچانک خیال آیا کہ ہم میڈیا والے بھی شاید ان سیاسی پتلیوں کی ڈور ہلانے اور تماشہ لگانے والوں کے ساتھ برابر کے شریک ہیں۔