پاکستانی صارفین کرپشن سے نہیں مہنگائی سے پریشان، رپورٹ
15 جنوری 2020اس انڈیکس کی تیاری کے لیے پاکستان میں کیے جانے والے ایک حالیہ سروے میں صارفین سے پوچھا گیا تھا کہ ان کے نزدیک سب سے زیادہ پریشان کن بات کیا ہے؟ اس سوال کے جواب میں سب سے زیادہ لوگوں کا کہنا تھا کہ وہ مہنگائی (29 فیصد) اور بے روز گاری (30 فیصد) کی وجہ سے پریشان ہیں، اس کے بعد زیادہ تر لوگوں نے ٹیکسوں کے بڑھتے ہوئے بوجھ (11 فیصد) کو اپنی پریشانی بتایا۔ پاکستانی صارفین کی دیگر پریشانیوں میں بڑھتی ہوئے غربت اور بجلی کے نرخوں میں ہونے والا اضافہ بھی ہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ ان سارے اعداد وشمار کے مقابلے میں صرف دو فیصد صارفین نے کرپشن، اقربا پروری اور رشوت ستانی جیسے امور کو اپنی سب سے بڑی پریشانی قرار دیا۔
اپنے 17 ہزار ملازمین کے ساتھ دنیا کے 89 ممالک میں کام کرنے والی فرانسیسی کمپنی IPSOS نے دسمبر 2019ء میں پاکستان کے 120 سے زائد شہروں اور دیہاتوں میں 18 سال سے زائد عمر کے مرد و خواتین سے معلومات حاصل کی تھیں۔ اس سروے میں 2900 افراد سے مقامی معاشی حالات اور ملک کی مجموعی اقتصادی صورتحال، تحفظ روزگار، قوت خرید، بچت اور سرمایہ کاری کے امکانات کے بارے میں پاکستانی شہریوں کی رائے حاصل کی گئی تھی۔اسی سروے میں لوگوں سے انہی امور کے بارے میں مستقبل کی توقعات کے حوالے سے بھی سوالات کیے گئے تھے۔
سرمایہ کاری، بچت، معاشی حالات اور روزگار کے حوالے سے صارفین کی آرا سےتیار کیے جانے والے گلوبل کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس 2019 میں پاکستان دنیا کی ابھرتی ہوئی معیشتوں بھارت، ترکی، جنوبی امریکا، روس، چین، اور برازیل سمیت 27 ممالک سے پیچھے ہے۔ سروے کے مطابق اگست 2019ء کے مقابلے میں دسمبر 2019ء میں ملک کے معاشی حالات میں زیادہ خرابی نوٹ کی گئی اور صارفین کا کہنا ہے کہ ایک سال پہلے وہ معاشی طور پر قدرے بہتر حالات میں تھے۔ تحفظ روزگار، قوت خرید، بچت اور سرمایہ کاری کے حوالے سے اس سروے میں پاکستان کی معاشی صورتحال میں پچھلے چھ ماہ کے دوران ابتری کو نوٹ کیا گیا ہے۔
IPSOS کی تازہ سروے رپورٹ میں سامنے آنے والے انکشافات نے حکومتی حلقوں کے ان دعووں کی نفی کر دی ہے کہ ملک کی معیشت کو پٹڑی پر ڈالا اور بہتر بنایا جا رہا ہے۔
ڈی ڈبلیو کے ساتھ خصوصی گفتگو میں IPSOS پاکستان کے منیجنگ ڈائریکٹر عبدالستار بابر کا کہنا تھا کہ اس مرتبہ گلوبل کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس میں پاکستان کا نمبر 32.8 ہے جو کہ پچھلے سال سے بھی ایک درجہ کم ہے۔ اس انڈیکس کا عالمی طور پر اوسط نمبر 48.5 ہے۔ بھارت اس انڈیکس میں 61.1 پر جبکہ ترکی 33.7 نمبر پر ہے۔
عبدالستار بابر کے مطابق گلوبل کنزیومر کانفیڈنس انڈیکس کی تازہ رپورٹ میں یہ بات سامنے آئی ہے کہ پچھلے سال کے مقابلے میں گھر، گاڑی یا روز مرہ کی اشیاہ خریدنے کے حوالے سے 90 فیصد پاکستانوں کے اعتماد میں کمی آئی ہے۔ اسی طرح اس سال تحفظ روزگار اور مستقبل کے لیے سرمایہ کاری یا بچت کرنے کے حوالے سے 80 فیصد پاکستانیوں کے اعتماد میں کمی نوٹ کی گئی ہے۔ اس سروے میں حصہ لینے والے افراد میں سے 40 فیصد لوگوں کا کہنا تھا کہ اس سال وہ یا ان کا کوئی جاننے والا معاشی صورتحال کی وجہ سے بے روزگار ہو گیا ہے۔ ان کے بقول ہر چار میں سے تین پاکستانی ملکی حالات کے حوالے سے عدم اطمینان کا شکار ہیں، جبکہ پانچ میں سے چار پاکستانیوں کا خیال ہے کہ ملکی معیشت کی حالت بری ہے۔
ڈی ڈبلیو سے گفتگو کرتے ہوئے اوکاڑہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر ڈاکٹر ذکریا ذاکر کا کہنا تھا کہ ملک کی معاشی صورتحال کی ابتری کے اثرات سماج پر ضرور پڑتے ہیں: ''اگر اقتصادی صورتحال ٹھیک نہیں ہوگی تو معاشرے میں تناؤ اور بے چینی میں اضافہ ہوتا ہے اور جرائم بڑھ جاتے ہیں۔‘‘ ان کے بقول اس صورتحال کو سنجیدگی کے ساتھ دیکھنے کی ضرورت ہے۔