پاکستانی عدلیہ میں خواتین کی نمائندگی کم کیوں؟
18 جنوری 2022سپریم جوڈیشل کمیشن نے حال ہی میں سپریم کورٹ میں پہلی بار ایک خاتون جج کی نامزدگی کی توثیق کی ہے، یوں جسٹس عائشہ ملک کی اس اعلیٰ ترین عدالت میں بہ طور جج تعیناتی کی راہ ہم وار ہو گئی ہے۔ اس اقدام کو حکومت، وکلاء، سماجی اور انسانی حقوق کے کارکنوں سمیت سماج کے تمام ہی شعبوں کی جانب سے سراہتے ہوئے ایک تاریخی موقع قرار دیا گیا ہے۔ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس گلزار احمد بھی ملک کی نامزدگی کے حامی ہیں۔
پاکستانی سپریم کورٹ میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی کی راہ ہموار
عائشہ ملک کی عدم تقرری: خواتین کی نمائندگی میں اضافے کا مطالبہ
اس تعیناتی کے لیے اگلی مرحلے میں ایک پارلیمانی پینل عائشہ ملک کو اگلے دس برس کے لیے سپریم کورٹ کے جج کے بہ طور نامزدگی کی توثیق کرے گا۔ مبصرین کے مطابق اس پارلیمانی پینل میں حکمران تحریک انصاف کے ممبران کی کافی تعداد موجود ہے، جو اس تعیناتی کی منظورے دے سکتے ہیں۔
حکمران جماعت سے تعلق رکھنے والی قانون ساز اور پارلیمانی سیکرٹری برائے قانون و انصاف ملیکہ بخاری نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ''یہ نہایت اہم پیش رفت ہے۔ عائشہ ملک ایک باصلاحیت جج ہیں اور قانون اور عدلیہ کے شعبے میں دیگر خواتین کے لیے ایک مثالیہ بھی۔‘‘
شروعات تو ہوئی
پاکستان میں انسانی حقوق کی آزاد تنظیم ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان نے بھی اس تعیناتی کا خیرمقدم کیا ہے۔ اس ادارے کی جانب سے جاری کردہ بیان کے مطابق، ''اعلیٰ ترین عدالت میں پہلی خاتون جج کی تعیناتی، عدلیہ کے شعبے میں جنسی تنوع کی صورت حال بہتر بنانے کی راہ میں ایک اہم قدم ہے، جہاں خواتین ججوں کی تعداد صرف سترہ فیصد جب کہ ہائی کورٹس میں یہ تعداد چار اعشایہ چار فیصد ہے۔‘‘
انسانی حقوق کے کارکنان اور مبصرین کے مطابق اس تعیناتی کے وجہ سے جمود ٹوٹ گیا ہے اور یوں اب ایک طرف خواتین کے لیے قانون کے شعبے میں امکانات پیدا ہوں گے جب کہ اعلیٰ عدالتوں میں بھی خواتین کے لیے مواقع نکلیں گے۔
معروف قانون دان برائے ڈیجیٹل حقوق نگہت داد نے ڈی ڈبلیو سے بات چیت میں کہا، ''اس نے یقیناﹰ جمود توڑ دیا ہے۔ اس کا اب نہ صرف صنف سے تعلق رکھنے والے کیسز پر فرق پڑے گا بلکہ خاتون جج کی موجود ہیں خواتین کا نظام انصاف پر اعتبار بھی بڑے گا کہ وہ عدالتوں کی جانب جا سکتی ہیں۔‘‘
ہارون ججوعہ (ع ت، ع ا)