پاکستانی مردوں کی چینی بیویاں حراست میں: حکومت کی خاموشی
25 اکتوبر 2018پاکستانی دفتر خارجہ کے حکام سے آج جمعرات 25 اکتوبر کو ملاقات کرنے والے ان تاجروں کا تعلق پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخوا، شمالی علاقے گلگت بلتستان اور پنجاب سے ہے۔ واضح رہے کہ پاکستان کے کئی تاجروں کا بالعموم اور گلگت وبلتستان کے کاروباری افراد کا بالخصوص چین کے صوبے سنکیانگ سے پرانا تعلق ہے۔ گلگت کے لوگوں کا کاشغر اور سنکیانگ کے دوسرے شہروں میں رہنے والے مسلمان افراد سے برسوں پرانا تعلق ہے۔ سنکیانگ چین کاوہ واحد صوبہ ہے جہاں ایسے مسلمانوں کی ایک بڑی تعداد آباد ہے، جو اپنے آپ کو ترکی النسل کہتے ہیں۔ چین کے دوسرے علاقوں کے برعکس یہاں کی تہذیب، زبان اور رسم و رواج مختلف ہیں۔ اس علاقے میں علیحدگی کی ایک تحریک بھی چل رہی ہے۔ کچھ ماہرین کا خیال ہے کہ اس تحریک کو امریکا اور مغربی ممالک کی حمایت حاصل ہے، جو بیجنگ پر بڑے پیمانے پر انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کا الزام لگاتے ہیں۔
تاجروں کے اس گروپ نے آج کی ملاقات پر بھی مایوسی کا اظہارکیا۔ ’’آج بھی انہوں نے صرف ہمیں تسلی دی ہے کہ ہم آپ کے مسئلے کو دیکھیں گے اور اس کو حل کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ پہلے بھی کئی بار ایسے ہی تسلیاں دیتے رہے ہیں اور آج بھی تسلیاں ہی دی ہیں۔‘‘یہ تاثرات تھے پریشان حال میر امان کے جو سنکیانگ میں پچیس برسوں سے رہ رہے ہیں اور جن کا تعلق گلگت بلتستان سے ہے۔
میر امان نے ڈی ڈبلیو کومزید بتایا، ’’میری بیوی کو تقریباﹰ چودہ ماہ سے حراست میں لیا ہوا ہے۔ میرے بیٹے کو بھی تقریباﹰ پندرہ ماہ سے اٹھایا ہوا ہے۔ میں پچیس برسوں سے سنکیانگ میں کاروبار کر رہا ہوں اور وہاں بہت پیسہ لگایا ہے۔ ہم نے کبھی کوئی غیر قانونی کام نہیں کیا۔ جب سے میری بیوی کو حراست میں لیا ہے، میری زندگی تباہوگئی ہے۔ میرے بچے ماں کو یاد کرروتے ہیں۔ میں انہیں کیسے سمجھاؤں۔ ہماری کوئی سننے والا نہیں۔‘‘
بین الاقوامی ذرائع ابلاغ نے حالیہ مہینوں میں انکشاف کیا تھا کہ چین نے بڑی تعداد میں سنکیانگ صوبے کے مسلمان افراد کو، جنہیں ایغور کہا جاتا ہے، حراستی کیمپوں میں رکھا ہوا ہے، جہاں انہیں اشتراکی نظریات کے حوالے سے تعلیم دی جاتی ہے۔ پاکستان میں کئی ذرائع کا دعویٰ ہے کہ پاکستانی مردوں سے شادی شدہ ایسی خواتین کی تعداد دو سو کے قریب ہیں جنہیں چینی حکام نے زیر حراست رکھا ہوا ہے۔ پنجاب سے تعلق رکھنے والے ایک تاجر نے نام نہ ظاہر کرنے کی شرط پر ڈوئچے ویلے کو بتایا، ’’تقریبا دوسو ایسی خواتین جنہوں نے پاکستانی مردوں سے شادیاں کیں ہیں، انہیں چینی حکام نے اٹھا یا ہوا۔ نہ ان سے کسی کو ملنے دیا جارہا ہے اور نہ یہ بتایا جارہا ہے کہ انہیں کس جرم میں گرفتار کیا گیا ہے۔ ہمارے حاکم ہماری مدد کرنے سے بالکل قاصر ہیں۔‘‘
گلگت سے ہی تعلق رکھنے والے تاجر ابرار علی نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’سب کو معلوم ہے کہ چین نے ہزاروں بلکہ لاکھوں کی تعداد میں ایغور لوگوں کو حراست میں رکھا ہوا ہے، جس میں کئی ایسی خواتین بھی ہیں، جنہوں نے یا تو پاکستانیوں سے شادی کی ہیں، یا وہ ان خواتین کی رشتہ دار ہیں، جنہوں نے پاکستانی مردوں سے شادی کی ہوئی ہے۔ میری اپنی سالی، برادرِ نسبتی اور سالہ حراست میں ہیں۔ خوف کی وجہ سے میری بیوی مجھ سے رابطہ نہیں کر رہی۔ لیکن ہم کس کے پاس جائیں۔ پاکستانی حکومت ہمیں بے بس لگتی ہے۔ ہماری کوئی فریاد سننے والا نہیں ہے۔‘‘
کئی ناقدین کا خیال ہے کہ کیونکہ چین پاکستان میں بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اس لیے پاکستان اس مسئلے پر خاموش ہے۔ تاہم حکمران جماعت پی ٹی آئی کا کہنا یہ ہے کہ حکومت کسی غیر ملکی شہری کے لیے کیسے کچھ بول سکتی ہے۔ پاکستان تحریکِ انصاف جنوبی پنجاب کے صدر اور سابق رکنِ قومی اسمبلی اسحاق خاکوانی نے اس مسئلے پر رائے دیتے ہوئے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ’’اگر پاکستانی مردوں کی یہ بیویاں چینی شہری ہیں، تو چین کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ ان سے تفتیش کرے یا قانون کے مطابق نمٹے ۔ ہم کسی غیر ملکی شہری کے حوالے سے کیسے بول سکتے ہیں۔ لیکن پھر بھی میرے خیال میں دفترِ خارجہ کو چینی حکام سے اس سلسلے میں معلومات حاصل کرنی چاہیے اور کوشش کرنی چاہیے کہ ان مردوں کی ان خواتین سے ملاقات کرائی جائے۔‘‘