پاکستانی معیشت: نئے سال میں بھی بہتری متوقع
1 جنوری 2016معاشی تجزیہ کاروں کی رائے میں حکومت کی اقتصادی پالیسیوں سے جہاں بین الاقوامی مالیاتی اداروں نے پاکستانی معیشت کی مثبت تصویر کھینچی، وہیں افراط زر میں کمی سے شرح سود گزشتہ 42 برس کے دوران اپنی کم ترین سطح پر آ گئی۔ اس کے علاوہ ایران، قطر، روس، ترکی، تاجکستان اور ترکمانستان سے توانائی کے شعبوں میں تعاون کے کئی معاہدوں پر دستخط کیے جبکہ چین نے بھی 46 ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کا اعلان کیا۔
معروف صنعت کار میاں زاہد حسین نے ڈوئچے ویلے کو بتایا کہ پاک چین اقتصادی راہداری منصوبے میں چینی سرمایہ کاری سے دیگر ممالک کو بھی پاکستان میں سرمایہ کاری کے لیے حوصلہ ملے گا کیونکہ اس منصوبے سے پاکستان کا عالمی مارکیٹ میں بہتر تصور سامنے آیا ہے۔
گزشتہ برس مالی ترسیلات میں نمایاں اضافے سے زرمبادلہ کے ذخائر ملکی تاریخ میں پہلی بار اکیس ارب ڈالر تک پہنچ گئے، جس کا مثبت اثر کراچی اسٹاک ایکسچینج کی کارکردگی پر بھی دیکھا گیا، جہاں سارا سال نئے ریکارڈ قائم ہوتے رہے۔
معروف سرمایہ کار حاجی غنی عثمان کے مطابق دو ہزار پندرہ میں سب سے بڑی کامیابی ملک کی تینوں اسٹاک ایکسچینجز کا انضمام رہا، اور کراچی، لاہور اور اسلام آباد اسٹاک ایکسچینج کو یکجا کرنے سے 2016ء میں ملکی معیشت پر مزید بہتر اثرات مرتب ہوں گے۔
2015ء میں بین الاقوامی منڈی میں خام تیل کی قیمتیں گرنے سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتیں کئی بار کم ہوئیں، جس سے مہنگائی میں کمی تو آئی لیکن وہ دیرپا ثابت نہ ہوسکی۔ ریاست کو مالی وسائل کی آمدنی بڑھانے کے لیے بینکوں کے ذریعے رقوم کی منتقلی پر وِدہولڈنگ ٹیکس لگایا گیا لیکن اس کے خلاف تاجر سڑکوں پر نکل آئے، توانائی کے بحران نے صنعتی عمل کو متاثر کیا جس سے برآمدات کا حجم سکڑ گیا اور برآمدات میں 5.7 فیصد کمی اور تجارتی خسارے میں 11.1 فیصد اضافہ ہوا۔ اس کے علاوہ حکومت اپنے تمام تر دعووں کے باوجود نئی تجارتی پالیسی تشکیل دینے میں ناکام رہی اور جی ایس پی پلس حیثیت برقرار رکھنے کے لیے یورپی یونین کو وضاحتیں پیش کرتی رہی۔
غیر یقینی موسمیاتی صورت حال نے بھی زرعی شعبے کو نقصان پہنچایا، کپاس اور چاول سیمت کئی اہم فصلوں کی پیداوار گھٹ گئی اور نوبت یہاں تک آن پہنچی کہ پاکستان میں ٹماٹر تک درآمد کرنا پڑے۔
لیکن ماہرین نے 2016 کے دوران نئی ٹیکس اسکیم کے نتائج کے مثبت رہنے کا یقین ظاہر کیا ہے اور کہا ہے کہ اس وجہ سے قومی خزانے میں آمدنی بڑھنے کا قوی امکان ہے اور ’ٹیکس نیٹ‘ بھی وسیع ہوگا۔
اس کے علاوہ ملک میں صنعتی ترقی کی شرح، جو گزشتہ دو سالوں میں دو فیصد رہی تھی، 2016ء میں بڑھ کر تین فیصد تک ہو جانے کا امکان ہے۔ اسی طرح معاشی ترقی کی سالانہ شرح بھی چار فیصد سے بڑھ کر پانچ فیصد تک پہنچ جانے کی امید ظاہر کی گئی ہے۔
پاکستانی معیشت پر گہری نظر رکھنے والے صحافی اور تجزیہ کار حارث ضمیر کہتے ہیں کہ پی آئی اے اور اسٹیل ملز کو گزشتہ کئی برسوں سے 100 ارب روپے سالانہ کی سبسڈی دی جا رہی ہے اور اس کے ملکی معیشت پر منفی اثرات نئے سال میں بھی مرتب ہوں گے۔ لیکن اگر آج شروع ہونے والے نئے سال میں ان دونوں اداروں کی نجکاری ہوجاتی ہے، تو یہ عمل بھی معیشت پر مثبت اثرات مرتب کرے گا۔
حارث ضمیر نے کہا کہ پاک چین اقتصادی راہداری کے مثبت اثرات کا اندازہ لگانے کے لیے اس منصوبے کے تحت کی جانے والی سرمایہ کاری کا انتظار کرنا ہوگا البتہ تیل کی قیتوں میں کمی سے شرح سود پر ممکنہ اثرات نہ ہونے کے برابر رہیں گے۔