1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستانی معیشت کی لائف لائن خطرے میں

18 دسمبر 2019

خانیوال سے تعلق رکھنے والے کسان احمد کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس بارے میں کوشش کرنا ہو گی کہ کسان کپاس کی فصل اگا سکیں وگرنہ ہم اس کو چھوڑ کر چاول کاشت کرنے لگیں گے۔

https://p.dw.com/p/3V1h2
تصویر: Manolo Ty

محبوب احمد کو اتنا یقین تھا کہ اس سال اسکی کپاس کی فصل بہت اچھی ہو گی کہ اس نے اپنے بیٹے کی شادی کی تاریخ بھی طے کرنے کا منصوبہ بنا لیا تھا ۔ لیکن اس کے بعد غیر معمولی بارش نے ایسا پتھراؤ کیا کہ صوبہ پنجاب کے ضلع خانیوال میں پھلتے پھولتے روئی کے پودے تباہ ہو گئے۔ احمد کا کہنا تھا
 

’’میرے تمام خواب اور منصوبے بکھر گئے۔ میں اس سال اپنی فصل کے نقصان پر اتنا دل برداشتہ ہوں کہ شاید اگلے برس سے میں کپاس کی کاشت کرنا چھوڑ دوں‘‘۔

ٹیکسٹائل صنعت کے ماہرین نے متنبہ کیا ہے کہ غیر معمولی موسم نے پاکستان کی پہلے سے علیل ہوتی کپاس کی فصل کو اتنا اپاہج بنا دیا ہے کہ جون 2020 ء  کے مالی سال کے اختتام تک آمدنی اور ملازمتوں کے نقصان کے نتیجے میں پاکستانی معیشت کو تین ارب ڈالر سے زیادہ کا دھچکا لگ سکتا ہے۔ 

کپاس کی فصل کے کمشنر اور پاکستان سینٹرل کاٹن کمیٹی کے نائب صدر خالد عبداللہ نے بتایا کہ اپریل سے ستمبر تک کپاس کے موسم میں تیز بارشوں اور شدید درجہ حرارت نے فصل کو انتہائی نقصان پہنچایا۔ 

 خالد عبداللہ نے تھامسن روئٹرز فاونڈیشن کو بتایا کہ اس صورتحال نے پوری ٹیکسٹائل صنعت پر گہرے منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ پاکستان کی کپاس کی فصل کا بیشتر حصہ صوبہ پنجاب کے جنوبی حصے میں کاشت کیا جاتا ہے اور اس فصل کو اگست اور ستمبر کے مہینے میں رات کے اوقات میں بھی غیر متوقع طور پر شدید درجہ حرارت کا سامنا رہتا ہے۔  باقی کاشت جنوب مشرق کے صوبہ سندھ میں کی جاتی ہے۔  جنوبی  پنجاب کے شہر ملتان میں سرکاری سطح پر چلنے والے سینٹرل کاٹن ریسرچ انسٹی ٹیوٹ کے مطابق تیز بارشوں اور خشک سالی کے دورانیے نے مل کر کپاس کی متوقع ایک تہائی فصل کو تباہ کر دیا ہے۔  عبداللہ نے کہا کہ ایک بار پھر پاکستان کے کاشت کاروں نے اپنی تیار فصل کو غیر متوقع آب و ہوا کے ہاتھوں تباہ ہوتے دیکھا ہے۔

عبداللہ کا کہنا تھا کہ ’’ کسان مسلسل بدلتے موسمی حالات کا شکار ہیں‘‘۔

 پچھلے سال شدید گرمی نے فصلوں کو تباہ کیا اور دونوں خطوں کے دریاؤں کو خشک کر دیا۔ پاکستان کے اعداد و شمار کے مطابق  کپاس معیشت کو چلانے کا بڑا ذریعہ ہے جس نے جی ڈی پی میں تقریبا ایک فیصد حصہ ڈالا ہے۔ لیکن اس مالی سال میں کپاس کے کاشتکاروں میں اس تیزی سے کمی ہوگی کہ حکومت کا 15 ملین گانٹھوں کا ہدف پورا نہ ہو پائے گا۔ پاکستان اپنی ٹیکسٹائل انڈسٹری کی کھپت کو پورا کرنے کے لیے باقاعدگی سے ازبکستان، ترکمنستان اور امریکا سے کپاس درآمد کرتا ہے۔

کسان آلودہ پانی سے سبزیاں کاشت کرنے پر مجبور


  
آل پاکستان ٹیکسٹائلز ملز ایسوسی ایشن کے  ایگزیکٹیو ڈائریکٹر شاہد ستار کا کہنا تھا کہ ملک کو جون کے آخر تک کم از کم چھ لاکھ گانٹھوں کا بندو بست کرنا ہو گا جو کہ گزشتہ مالی سال میں درآمد کی گئی مقدار کا ڈبل ہے۔  ان کا کہنا تھا کہ کپاس پر لاگت بہت مہنگی ہونے کے سبب مجموعی طور پر ٹیکسٹائل انڈسٹری کی لاگت میں اضافہ ہو جاتا ہے۔ 
اپٹما کے اعداد و شمار ظاہر کرتے ہیں کہ کپاس ٹیکسٹائل انڈسٹری کا اہم خام مال کپڑے کی قیمت میں ستر فیصد کردرا ادا کرتا ہے۔ ستار کا کہنا تھا کہ’’ کپاس کی فصل کا نقصان ملکی معیشت کے لیے تباہی کا سبب بنتا ہے۔ یہ چیز روزگار پر بھی اثر انداز ہو گی کیونکہ اس مالی سال میں 25 فیصد افراد میں سے 2 فیصد  جن کا روزگار کاٹن ٹیکسٹائل سے جڑا ہے وہ اپنی ملازمیتیں کھو سکتے ہیں‘‘۔  
اس سلسلے میں ایس ڈی پی آئی کے ایگزیکٹیو ڈائیریکٹر عابد سلہری کا کہنا ہے کہ کپاس کی کم پیداوار کا یقینی اثر ہماری کمزور معیشت پر پڑے گا۔

 خانیوال سے تعلق رکھنے والے کسان احمد کا کہنا تھا کہ حکومت کو اس بارے میں کوشش کرنا ہو گی کہ کسان کپاس کی فصل اگا سکیں وگرنہ ہم اس کو چھوڑ کر چاول کاشت کرنے لگیں گے۔ ’’کاٹن صرف ہماری لائف لائن نہیں بلکہ یہ ملکی معیشت کی لائف لائن بھی ہے۔ اس کو پالسی سازوں کی توجہ کی ضرورت ہے‘‘۔

ع ش ۔ ک م