پاکستانی نوجوانوں میں کرسٹل میتھ کے استعمال میں اضافہ کیوں؟
22 اپریل 2021پاکستان میں اس کا استعمال کرنے والے افراد کی تعداد میں اضافہ ہو رہا ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ اس نشے کی جانب زیادہ تر طلبا، تعلیم یافتہ اور اعلی طبقے کے افراد راغب ہو رہے ہیں۔
پاکستان کی انسداد منشیات فورس کے مطابق ملک میں تقریبا 27 ملین افراد کسی نہ کسی طریقے سے منشیات کے مسئلے سے نبردآزما ہیں۔
ماہرین کے مطابق تعلیم یافتہ طبقے میں اس نشے کی لت میں اضافہ تشویشناک ہے جبکہ اس کے علاج میں مدد فراہم کرنے کے حوالے سے ڈیٹا کی بھی کمی ہے۔ پاکستان میں بہت سے خاندان اس مسئلے کو خفیہ رکھتے ہیں لیکن کچھ لوگ اپنے تجربات بتانے کے لیے تیار ہیں۔
پچیس سالہ صفیان علی کا تعلق راولپنڈی سے ہے اور وہ گھر کا خرچہ اٹھانے کے لیے اپنے والد کے ساتھ کام کرتا ہے۔ تاہم گزشتہ برس نومبر میں اسے دوستوں کے ذریعےکرسٹل میتھ آزمانے کا شوق ہوا۔ علی کا کہنا تھا کہ چاروں دوستوں نے ایک ساتھ اسے استعمال کرنا شروع کیا۔
کرسٹل میتھ کو زبان پر رکھ کر، سگریٹ نوشی، سونگھنے یا انجکشن لگا کر استعمال کیا جاتا ہے۔ کہا جاتا ہے کہ اس کے اثرات میں جنسی کارکردگی میں بہتری، جوش و جذبات کے احساسات اور بھوک میں کمی شامل ہیں۔
ڈی ڈبلیو سے بات کرتے ہوئے علی کا کہنا تھا، ''پہلے پہل تو ایک عجیب و غریب احساس پیدا ہوتا تھا لیکن جیسے جیسے وقت گزرتا گیا، اس نے مجھے چڑچڑا اور بے چین کر دیا۔ اس سے ایک تو میری زندگی برباد ہو رہی تھی، دوسرا یہ میرے خاندان کے لیے بھی باعث بدنامی تھا۔‘‘
جب علی کے گھر والوں کو پتا چلا تو انہوں نے اسے علاج کے لیے اسلام آباد کے ہسپتال میں داخل کروا دیا۔ علی کا کہنا تھا،''میں وہاں تین ماہ سے زیادہ عرصے تک رہا۔ اب کافی حد تک بہتری آ چکی ہے اور میں بیرون ملک جانے کا ارادہ رکھتا ہوں۔ لیکن میں اپنے دوستوں کے بارے میں اب پریشان ہوں جو علاج نہیں کروا سکے اور اب بھی اس جان لیوا لت میں مبتلا ہیں۔‘‘
تعلمی ادارے کرسٹل میتھ کا گڑھ
لاہور میں مقیم کلینیکل ماہر نفسیات نائلہ عزیز نے ڈی ڈبلیو کو بتایا، ''اس نشے کا مسلسل استعمال کرنے والے خطرناک، پرتشدد اور جھگڑالو ہو جاتے ہیں۔‘‘ ان کا مزید کہنا تھا،''بدقسمتی سے اس نشے کا زیادہ استعمال پڑھی لکھی کلاس کر رہی ہے۔‘‘
ان کا کہنا تھا کہ اس نشے کے پھیلاؤ کی ایک بڑی وجہ ہم عمروں کا دباؤ ہے اور یہ مڈل اور اپر کلاس کے خاندانوں کے لیے ایک مسئلہ بن چکا ہے۔
نائلہ عزیز نے سرکاری اعداد و شمار کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ سن دو ہزار اٹھارہ میں نارکوٹکس فورسز کے چھاپوں میں سب سے زیادہ کرسٹل میتھ تعلیمی اداروں سے برآمد ہوئی تھی۔
اسلام آباد کی ماہر نفسیات لبنیٰ ساجد کا کہنا ہے کہ کرسٹل میتھ کے ڈیلروں کے آپس میں خاصے رابطے ہیں۔ کچھ ڈیلر تعلیمی اداروں میں ہوتے ہیں اور انہیں نئے طلبا ملتے رہتے ہیں۔
کرسٹل بیچنے والوں کی سزا دو سال قید یا بھاری جرمانہ ہے یا دونوں ایک ساتھ بھی ہو سکتی ہیں۔ سزا منشیات کی مقدار کے حساب سے دی جاتی ہے۔
کراچی کے پولیس افسر جاوید اقبال کا کہنا ہےکہ کرسٹل میتھ کے استعمال میں پکڑے جانے پر سزاؤں کی شرح انتہائی کم ہے اور اس کا انحصار علاقے اور وہاں پر تعینات حکام سے بھی ہوتا ہے کہ وہ اس کیس سے کیسے نمٹتے ہیں۔
ڈیٹا کی کمی علاج کو پیچیدہ بناتی ہے
نائلہ عزیز کے مطابق کرسٹل میتھ کے صارفین کی حقیقی تعداد کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔ ان کے مطابق یہ نشہ کرنے والوں کی تعداد میں تیزی سے اضافہ ہو رہا ہے لیکن بہت سے لوگ اس لت کو خفیہ رکھتے ہیں اور یہی وجہ ہے کہ اصل تعداد معلوم کرنا مشکل ہے۔
ملک نذیر فیصل آباد میں منشیات کے عادی افراد کے علاج کا مرکز چلاتے ہیں۔ ان کے مطابق اس کی ایک وجہ یہ ہے کہ بہت سے خاندان بدنامی سے ڈرتے ہیں اور اس کو خفیہ رکھتے ہیں۔ ان کا خیال ہے کہ میتھ استعمال کرنے والوں کی تعداد دسیوں ہزار میں ہو سکتی ہے۔
جو اعداد و شمار موجود ہیں، ان کے مطابق خواتین اور مرد دونوں ہی اس نشے کا استعمال کر رہے ہیں جبکہ قدامت پسند علاقوں میں متاثرہ خواتین کے لیے علاج کی سہولت تلاش کرنا بہت مشکل کام ہے۔
خیبرپختونخوا میں منشیات کے عادی افراد کے علاج کا مرکز چلانے والے ساجد اللہ خان نے ڈی ڈبلیو کو بتایا کہ انہیں تقریبا ہر روز ہی پریشان والدین کی کالیں آتی ہیں کہ آیا ان کے سینٹر میں خواتین کا علاج بھی کیا جاتا ہے؟
ساجد اللہ خان کے مطابق وہ ایسے لوگوں کو اسلام آباد یا پھر پنجاب کے بحالی مراکز بھیج دیتے ہیں کیوں کہ خیبرپختونخوا میں منشیات کی عادی خواتین کے حوالے سے کھل کر کام کرنا مشکل ہے۔
پاکستان میں چونکہ نوجوان میتھ کا زیادہ استعمال کر رہے ہیں، ایسے میں پاکستان جیسے روایتی معاشرے میں خواتین کے والدین کے لیے پریشانیوں میں مزید اضافہ ہونے کا خدشہ ہے۔
ایس خان، اسلام آباد (ا ا / ش ج)