پاکستانی ٹرانس جینڈر شہریوں کو شناختی کارڈوں کا اجرا بحال
26 ستمبر 2023نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی کے حکام نے منگل چھبیس ستمبر کے روز ایک بیان میں کہا کہ ٹرانس جینڈر پاکستانیوں کو شناختی کارڈ جایی کرنے کا عمل دوبارہ شروع کیا جا رہا ہے۔ یہ سلسلہ ایک اسلامی عدالت کے ایک متنازعہ فیصلے کے سبب چار ماہ تک معطل رہا تھا۔ نادرا کی طرف سے اس فیصلے کے اعلان اور ٹرانس جینڈر شہریوں سے متعلق ایک متنازعہ فیصلے پر عمل درآمد ختم کرنے کا مقصد ایسے پاکستانی باشندوں کے حقوق کا تحفظ کرنا ہے۔
نادرا نے مئی میں پاکستانی ٹرانس جینڈر کمیونٹی سے تعلق رکھنے والوں کو شناختی کارڈ جاری کرنے کا سلسلہ اس وقت روک دیا تھا جب ملک کی وفاقی شرعی عدالت نے ایسے افراد کے بارے میں یہ فیصلہ سنایا تھا کہ وہ اپنی مرضی سے اپنی جنس تبدیل نہیں کرا سکتے اور انہیں دیگر انسانوں کی طرح مساوی حقوق دینا 'اسلام کے خلاف‘ ہے۔ شرعی عدالت نے اپنا فیصلہ سناتے ہوئے یہ بھی کہا تھا کہ حکام 'ایکس‘ اسٹیٹس کے ساتھ ایسے شناختی کارڈ جاری کرنا بند کریں۔ 'ایکس‘ اسٹیٹس دراصل تیسری صنف کی نشاندہی کرتا ہے، یعنی ایسے انسان جو نہ مرد اور نہ ہی عورت ہوتے ہیں اور جنہیں ٹرانس جینڈر کے طور پر تیسری صنف کے زمرے میں ڈال دیا جاتا ہے۔
شناختی کارڈ ضروری کیوں؟
پاکستان میں ڈرائیونگ لائسنس، طبی دیکھ بھال اور روزمرہ کی دیگر خدمات تک رسائی کے علاوہ کسی بینک میں اکاؤنٹ کھولنے کے لیے بھی شناختی کارڈ کا ہونا لازمی ہے۔ تاہم ٹرانس جینڈر افراد کو شناختی کارڈوں کا اجرا روک کر انہیں معاشرے میں رہنے کے لیے درکار ان سہولیات سے محروم کر دیا گیا تھا۔ اس پر انسانی حقوق کے لیے سرگرم اداروں اور شخصیات کی طرف سے کافی تنقید بھی کی گئی تھی اور اس عدالتی فیصلے کو انسانی حقوق کی خلاف ورزی قرار دیا گیا تھا۔
نادرا کی طرف سے ٹرانس جینڈر شہریوں کو قومی شناختی کارڈوں کا اجرا بحال کرنے کے فیصلے پر تبصرہ کرتے ہوئے انسانی حقوق کے معروف کارکن فرحت اللہ بابر نے ایسوسی ایٹڈ پریس کو بتایا، ''انسانی حقوق کے کارکنوں نے شرعی عدالت کے فیصلے کو واپس لینے کی اپیل اس بنیاد پر کی تھی کہ اس سے ٹرانس جینڈر شہریوں کے بنیادی انسانی حقوق پامال ہوتے ہیں۔ دریں اثنا نادرا حکام نے تصدیق کر دی ہے کہ انہوں نے ایسے افراد کو شناختی کارڈوں کا اجرا بحال کر دیا ہے۔‘‘
حکام کی طرف سے وضاحت کی گئی ہے کہ ان کی قانونی ٹیم نے یہ نتیجہ اخذ کیا ہے کہ وہ ایسا کر سکتے ہیں کیونکہ وفاقی شرعی عدالت کے اس فیصلے کو اب چیلنج کر دیا گیا ہے۔ پاکستانی قوانین کے تحت ایسا کوئی عدالتی فیصلہ اس وقت تک نافذالعمل نہیں ہو سکتا جب تک اس کے خلاف دائر کردہ کسی اپیل یا نظرثانی کی درخواست پر کوئی فیصلہ نہ ہو جائے۔
ٹرانس جینڈر پرسنز پروٹیکشن آف رائٹس ایکٹ 2018ء
2018ء میں پاکستانی پارلیمان نے ٹرانس جینڈر پرسنز کے حقوق کے تحفظ کے لیے ایک ایکٹ منظور کیا تھا۔ ان حقوق میں ایسے شہریوں کا ان کی صنفیشناخت سے متعلق حق بھی شامل تھا۔ تاہم مسلم اکثریتی پاکستان میں بہت سے لوگ جنس، جنسیت اور ٹرانس جینڈر شہریوں کو اکثر اپنی برادری سے باہر سمجھنے کو اپنے عقیدے کا حصہ سمجھتے ہیں۔
ٹرانس جینڈر افراد کے ساتھ ہونے والے غیر مساوی سلوک اور ان کے بنیادی انسانی حقوق کی پامالی کے نتیجے میں زیادہ تر ٹرانس جینڈر شہری اپنا پیٹ بھرنے کے لیے بھیک مانگنے اور ناچنے گانے حتیٰ کہ بہت سے جسم فروشی تک پر مجبور ہو جاتے ہیں۔ اس کے علاوہ انہیں مذہبی انتہا پسندوں کی طرف سے حملوں کا خوف بھی رہتا ہے۔
نادررا کا فیصلہ خوش آئند
نادرا کی طرف سے ٹرانس جینڈر پاکستانی شہریوں کو شناختی کارڈوں کا اجرا بحال کرنے کے فیصلے کا ملک بھر میں اس سماجی اقلیتی برادری کی طرف سے خیر مقدم کیا گیا ہے۔ ٹرانس رائٹس کے لیے کام کرنے والے ایک کارکن نایاب علی نے اس بارے میں اپنے رد عمل میں لکھا، ''میں ٹرانس جینڈر کارکنوں کی پوری کمیونٹی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں۔‘‘
نایاب علی نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر اپنی ایک پوسٹ میں لکھا، ''آپ کی انتھک جدوجہد کے لیے آپ سب کو مبارک باد اور ان تمام اداروں کا بھی دل سے شکریہ، جنہوں نے اپنی کاوشوں سے اس پیش رفت کو ممکن بنایا۔‘‘
ک م / م م (اے پی)