پاکستانی پناہ گزین کے پاس ملک بدری سے بچنے کا آخری موقع
21 اگست 2019جرمن زبان سیکھی، متعدد انٹرنشپس اور پیشہ ورانہ تربیت مکمل کرنے کے بعد ملازمت کی بھی یقین دہانی: ایک پاکستانی پناہ گزین انیس نے خود کو جرمنی میں ضم کرنے کے لیے یہ تمام کوششیں کر دیں لیکن پھر بھی ان کو جرمنی سے ملک بدری کا خطرہ لاحق ہے۔ پاکستانی پناہ گزین انیس یکم ستمبر 2017ء سے ’این ایف سی ماہلر‘ نامی ایک ٹرک ساز ادارے میں میکاٹرونکس کے شعبے میں ووکیشنل ٹریننگ حاصل کر رہے ہیں۔ ان کی سیاسی پناہ کی درخواست مسترد ہو چکی تھی اور رواں ماہ 14 اگست کو متعلقہ حکام کی جانب سے ملک بدری کے احکامات بھی جاری کر دیے گئے۔
جرمنی: وطن میں چھٹیاں منانے پر مہاجر کا درجہ واپس لیں گے، زیہوفر
’این ایف سی ماہلر‘ کے مالکان کو جب اس بات کی خبر ملی تو انہوں نے اس حوالے سے اپنا رد عمل ادارے کے فیس بک پیج پر ایک جذباتی تحریر کی شکل میں پیش کیا۔ مورخہ 16 اگست کو شائع کی جانے والی اس پوسٹ میں مالکان نے لکھا ’’ہم حیران و پریشان ہیں، افسردہ ہیں اور غصے میں بھی ہیں، ہم عدالت کے اس فیصلے کے خلاف ہر ممکن قانونی کارروائی کرنے میں انیس کی مدد کریں گے۔‘‘
سماجی رابطے کی ویب سائٹ فیس بک پر یہ پوسٹ وائرل ہو گئی اور پچاس ہزار سے زائد صارفین نے اس کو شیئر بھی کیا۔ فیس بک پر یہ ایک بحث کا موضوع بن گیا اور اس پوسٹ پر بارہ ہزار سے زائد صارفین نے کمنٹس کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کیا۔ فیس بک صارفین میں پناہ گزینوں کے حقوق کے سرگرم کارکن، مقامی سیاستدان اور قانونی ماہرین بھی شامل تھے۔ متعدد صارفین نے انیس کی مدد کے حوالے سے پیش کش کی جبکہ بلدیاتی حکام نے انیس کی ملک بدری کے فیصلے پر دوبارہ غور کرنے پر بھی زور دیا۔ تاہم بعض صارفین نے اس جرمن کمپنی پر تنقید کرتے ہوئے لکھا کہ مالکان اس پناہ گزین کی کہانی کے ذریعے اپنی کمپنی کی تشہیر کر رہے ہیں۔
تارکین وطن ابھی تک یورپی باشندوں میں تشویش کی بڑی وجہ: سروے
ملک بدری سے بچنے کی آخری امید
این ایف سی ماہلر کے چیئر مین کے مطابق وہ چاہتے ہیں کہ زیر تربیت نوجوان یہ پروگرام مکمل کرے اور جرمنی میں ہی ملازمت کرے۔ جرمن قوانین کے مطابق جرمنی میں پناہ گزینوں کو ڈولڈونگ (جن کے ملک بدر کیے جانے پر عارضی پابندی ہے) یا رہائشی اجازت نامہ دیا جا سکتا ہے جبکہ انیس کو ’آؤسبلڈنگ ڈولڈونگ‘ مل سکتی ہے، یعنی تربیت مکمل ہونے تک ان کو ملک بدر نہیں کیا جاسکتا۔
جرمنی میں پناہ گزین کو ووکیشنل ٹریننگ پروگرام میں حصہ لینے سے قبل جرمن زبان پر عبور حاصل کرنا ہوتا ہے۔ اس کے بعد اسی شعبے میں انٹرنشپ بھی کرنا ضروری ہوتی ہے۔ بعدازاں یہ کمپنیاں زیر تربیت پناہ گزین کے رویے، محنت اور لگاؤ کو دیکھتے ہوئے اسے تین سال کے دورانیہ کے لیے پیشہ ورانہ تربیت حاصل کرنے کا موقع فراہم کرتی ہیں۔ فنی تربیت کے تین سالہ پروگرام پر ایسی کمپنیوں کا کافی زیادہ خرچہ ہوتا ہے، اس کا مقصد دراصل مستقبل کے لیے ملازمین کو تیار کرنا ہوتا ہے۔