پاکستانی کرکٹرز کے خلاف الزامات خارج کر دیے گئے
14 اکتوبر 2010آئی سی سی کی گورننگ باڈی نے دبئی میں دو روزہ اجلاس کے بعد ایک اعلامیے میں کہا ہے کہ 17 ستمبر کو اوول میں انگلینڈ اور پاکستان کے درمیان کھیلے گئے ٹیسٹ میچ میں کسی بھی کھلاڑی یا عملے کے کسی رکن کی جانب سے کرپشن میں ملوث ہونے کا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا۔
اعلامیے میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ تفتیش اب تک کے لئے مکمل ہو گئی ہے، تاہم مستقبل میں نئے اور ٹھوس شواہد سامنے آئے تو آئی سی سی کا اینٹی کرپشن اور سکیورٹی یونٹ (ACSU)کارروائی پھر سے شروع کر دےگا۔
آئی سی سی کا کہنا ہے، ’اے سی ایس یو نے دستیاب تمام معلومات کی چھان بین کر لی ہے اور کہا ہے کہ ایسا کوئی ٹھوس ثبوت نہیں ملا، جس سے کسی کھلاڑی یا عملے کے کسی رکن کو مشتبہ قرار دیا جا سکے‘۔
دوسری جانب پاکستان کرکٹ ٹیم کے کپتان شاہد آفریدی نے تفتیش مکمل ہونے پر اطمینان کا اظہار کیا ہے۔ انہوں نے کہا، ’میں نے ہمیشہ کہا کہ ہم ایمانداری سے کھیلے۔ مجھے اپنے کھلاڑیوں پر پورا اعتماد تھا۔ مجھے خوشی ہے کہ ہمیں الزامات سے بری قرار دیا گیا ہے۔‘
خبررساں ادارے روئٹرز سے گفتگو میں شاہد آفریدی نے کہا کہ دورہ انگلینڈ کے دوران پوری ٹیم نے کرکٹ پر توجہ دی اور وَن ڈے سیریز کے دو میچ جیتے۔ انہوں نے کہا کہ یہ معاملہ اب پیچھے رہ گیا ہے اور وہ جنوبی افریقہ کے خلاف کرکٹ سیریز پر دھیان لگا سکتے ہیں۔
پاکستان کے کوچ وقار یونس نے کہا کہ پاکستان کرکٹ کے لئے یہ ایک خوش آئند خبر ہے۔ انہوں نے کہا کہ تفتیشی عمل کی خبریں پریشان کن رہی ہیں۔
آئی سی سی نے بدعنوانی کے خلاف اقدامات کا آزادنہ جائزہ لینے کا فیصلہ بھی کیا ہے اور اپنے رکن بورڈز سے کہا ہے کہ ڈومیسٹک کرکٹ میں سامنے آنے والے بدعنوانی کے الزامات کی آزادانہ تفتیش شروع کریں۔ آئی سی سی کے مطابق پاکستان کرکٹ بورڈ نے اے سی ایس یو کی طرز پر ڈومیسٹک اینٹی کرپشن کوڈ متعارف کرانے پر اتفاق کیا ہے۔
آئی سی سی کی گورننگ باڈی نے دبئی سے اپنے صدر دفاتر کی منتقلی کو بھی خارج از امکان قرار دیا ہے۔
رپورٹ: ندیم گِل
ادارت: امجد علی