پاکستانی ہی سب سے پہلے ملک بدر کيوں؟
يورپی يونين اور ترکی کے مابين طے پانے والی ڈيل کے تحت اب تک 326 مہاجرين کو ملک بدر کيا جا چکا ہے، جن ميں 201 پاکستانی ہيں۔ يہ پناہ گزين بھاری رقوم خرچ کر کے يونان پہنچے ہيں اور ترکی ملک بدری کا خوف انہيں کھائے جا رہا ہے۔
ليسبوس پر ’غير قانونی‘ قيام
مقامی ميئر کے پريس آفيسر ماريو آندروئٹس کے مطابق مہاجرين نے وہاں جو کيمپ لگا رکھا ہے، وہ مکمل طور پر غير قانونی ہے۔ ان کے بقول وہ اس مسئلے کا پر امن انداز ميں حل نکالنے کی کوشش ميں ہيں تاہم اگر مہاجرين نے کيمپ نہيں چھوڑا تو پوليس کو طلب کيا جا سکتا ہے۔ يہ ليسبوس کے اس ايک کيمپ کی بات کر رہے ہيں، جہاں کئی پاکستانی موجود ہيں۔
سمندر سے بچائے جانے والے
مائيٹيلين کی بندرگاہ پر يونانی کوسٹ گارڈز کی جانب سے حراست ميں ليے جانے والے تارکين وطن کا ايک گروپ پوليس کی ايک بس پر انتظار کر رہا ہے۔ يہ تصوير رواں ہفتے اس وقت لی گئی تھی، جب يونان نے سياسی پناہ کے ليے غير مستحق سمجھے جانے والوں کی ترکی ملک بدری شروع کردی تھی۔
واپسی کا طويل سفر، مستقبل غير واضح
آٹھ اپريل کے روز 202 تارکين وطن کو ملک بدر کيا گيا۔ اس گروپ ميں ايک سو تيس پاکستانی شامل تھے۔ دوسرے نمبر پر افغان شہری تھے۔ اس کے علاوہ چند بنگلہ ديشی، کانگو کے کچھ شہری، چند ايک بھارتی اور سری لنکن تارکين وطن کو بھی ملک بدر کيا گيا۔
بھوک ہڑتال
ليسبوس پر قائم ايک حراستی مرکز موريا کے مہاجر کيمپ ميں پاکستانی تارکين وطن بھوک ہڑتال پر تھے۔ جنگی حالات سے فرار ہونے والا ايک نوجوان بلوچی لڑکا احتجاج کرتے ہوئے ایک کھمبے پر چڑھ گيا تھا اور دھمکی دينے لگا کہ وہ خود کو پھانسی دے دے گا۔ بعد ازاں اس کے ساتھيوں نے اسے سمجھایا اور وہ نیچے اتر آیا۔
ايک بے بس باپ
اڑتيس سالہ اعجاز اپنے اہل خانہ کے ليے ذريعہ معاش کا واحد ذريعہ ہیں۔ انہوں نے يورپ تک پہنچنے کے ليے اپنا مکان بيچ ڈالا تھا۔ وہ کہتے ہیں، ’’ميں بہت غريب آدمی ہوں۔‘‘ اپنے اہل خانہ کو غربت سے چھٹکارہ دلانے کا اعجاز کا خواب چکنا چور ہو کر رہ گيا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ اسے يورپ ميں مرنا قبول ہے ليکن ترکی جانا نہيں۔
خوف کی زندگی
ايک پاکستانی تارک وطن پوليس سے بھاگ کر ’نو بارڈر کچن کيمپ‘ کی طرف جا رہا ہے۔ مہاجرين کو کيمپوں کے آس پاس ہی رکھا جاتا ہے اور رات کے وقت پوليس انہيں بندرگاہ کے علاقے اور شہر کے مرکز ميں نہيں جانے ديتی۔
مفت کھانا
تارکين وطن کھانے کے ليے قطاروں ميں کھڑے ہيں۔ نو بارڈر کيمپ ميں يہ مہاجرين سب کچھ مل کر ہی کرتے ہيں۔ اس کيمپ ميں کوئی کسی کا سربراہ نہيں اور سب کو برابر سمجھا جاتا ہے اور فيصلے مشترکہ طور پر مشاورت کے بعد کيے جاتے ہيں۔
سرد راتيں
پاکستانی تارکين وطن کا ايک گروپ خود کو گرم رکھنے کے ليے آگ لگا کر ہاتھ تاپ رہا ہے۔ ان ميں سے کچھ کا کہنا ہے کہ ترکی ميں انہيں يرغمال بنا ليا گيا تھا اور تاوان کے بدلے چھوڑا گيا تھا۔ ان ميں ايک پاکستانی حسن بھی ہے، جس نے اپنے خلاف قتل کی متعدد کوششوں کے بعد ملک چھوڑا تھا۔ اس کا کہنا ہے کہ ترکی اس کے ليے محفوظ ملک نہيں۔