موبائل اور انٹرنیٹ زندگی کی ضروریات میں شامل ہیں، جس میں ایک بہت بڑا کردار کورونا وبا نے بھی ادا کیا۔ کاروباری بندش اور دنیا بھر میں ہونے والی معاشی بدحالی نے، جہاں لوگوں کو معاشی اور ذہنی طور پر مفلوج کیا، وہیں فری لانسنگ نے ڈوبتے کو تنکے کا سہارا دینے والا کام کیا۔
دنیا بھر میں اپنے کاموں کے لیے وقتی طور پر کسی کی مدد معاوضے کے تحت لینا بہت عرصے سے جاری تھا مگر اسے مکمل انڈسڑی کے طور پر سامنے آنے میں کچھ وقت لگا جبکہ پاکستان جیسے پسماندہ ملک میں کچھ زیادہ وقت۔ اس کی بہت سی اور وجوہات میں سے اہم ''اسے مکمل نوکری نا سمجھنا‘‘ اور انٹرنیٹ تک رسائی نا ہونا تھیں۔
پاکستان میں اس وقت انٹرنیٹ صارفین کی تعداد تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ اس وقت تقریبا 82.90 ملین لوگ انٹرنیٹ تک رسائی رکھتے ہیں۔ سوشل میڈیا پر اس وقت 1.19 فیصد خواتین جبکہ 9.80 فیصد مرد حضرات موجود ہیں۔ یہ اعداد ایک بات واضح بتاتے ہیں کہ آج کے ڈیجیٹل دور میں بھی خواتین کی انٹرنیٹ اور سمارٹ موبائلز تک رسائی مرد حضرات کے مقابلے میں آٹے میں نمک کے برابر ہی ہے۔
انٹرنیٹ جسے پہلے صرف تفریح کا ذریعہ مانا جاتا تھا اب معاشی ضرورت بن چکا ہے۔ آن لائن سروس ایپس نے زندگی کو مایوسی سے نکالنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ گو کچھ قدامت پسند حلقے آج بھی لیپ ٹاپ اور موبائل کو صرف تفریح اور وقت گزاری ہی سمجھتے ہیں مگر ملکی معیشت میں فری لانس انڈسٹری نے اپنے ہونے اور فائدہ مند ہونے کا واضح ثبوت دیا ہے۔ پاکستان دنیا بھر میں فری لانس مارکیٹ میں چوتھے نمبر پر ہے اور 18 سے 25 سال تک کا نوجوان سب سے زیادہ اس مارکیٹ میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں۔
فری لانسنگ یا آن لائن کام کا آغاز کیسے ہوا، یہ تاریخ بھی بہت دلچسپ ہے۔ ابتدا میں فری لانسنگ کو اس کرائے کے سپاہی سے جوڑا گیا، جو کسی بھی شخص یا قوم کے لیے معاوضہ لے کر لڑے۔ پھر رفتہ رفتہ اسے انٹرنیٹ کے ذریعے لوگوں سے رابطہ بنانے اور اپنے طے شدہ معاوضے کے تحت کام دینے کی طرف منتقل کیا گیا۔ سن 2009 میں اس انڈسٹری نے دنیا میں تیزی سے ترقی کرنا شروع کی یا یوں کہنا زیادہ مناسب ہو گا کہ ترقی یافتہ ممالک میں ترقی کرنا شروع کی۔
پاکستان نے اس فیلڈ میں قدم دیر سے رکھا مگر اس وقت تقریبا ایک ملین لوگ مختلف سکیلز کے ساتھ اپنا لوہا منوا رہے ہیں۔ یہ 2016 کی بات ہے، جب ہشام سرور کو فری لانسنگ گرو کے طور پر خبروں کی زینت بنایا گیا۔ یوں ہشام سرور بینگ گرو کے خالق بنے۔ ہشام پاکستان میں ''جو آتا ہے دوسروں کو سیکھا دو‘‘ پر یقین رکھتے ہوئے فری لانسنگ سکیلز کو سوشل میڈیا پلیٹ فارمز کے ذریعے بالکل مفت نوجوانوں کو سیکھا رہے ہیں۔
ہشام کا کہنا ہے ''فری لانسنگ میں ابھی ہمارا بلوچستان، گلگت اور کشمیر بہت پیچھے ہے۔‘‘ ہشام خود بھی فری لانسنگ ہی کے ذریعے روزی کما رہے ہیں اور اسی کے ذریعے عوامی سطح پر بھی اور قومی سطح پر بھی بے ایوارڈز جیت چکے ہیں۔ مگر ان کا سب سے بڑا ایوارڈ وہ محبت ہے، جو نوجوان ان کی سیکھائی ہوئی صلاحیتوں سے روزی کمانے کے بعد انہیں دیتے ہیں۔
سنی علی کراچی کے رہائشی ہیں۔ زندگی میں بار بار ناکامی کا سامنا کرنے والے سنی علی اس وقت پاکستان میں 'فری لانسنگ مارکیٹ کے ڈان‘ مانے جاتے ہیں۔ ایکسٹریم کامرس نے ہاؤس وائفز کو فری لانسنگ میں سب سے زیادہ اہمیت دی اور مفت کورسز آفر کیے۔ مختلف ڈیجیٹل میڈیا چینلز پر اور ایمازون پر کامیابی سے فری لانسنگ کرتی خواتین بہت سی دیگر خواتین کی ہمت بندھا رہی ہیں۔
ثاقب اظہر، اینیبلرز کے نام سے اپنے ادارے میں نوجوانوں کو مختلف سکیلز بھی سیکھا رہے ہیں اور بوٹ کیمپس کے ذریعے انٹرنیٹ اور کمپیوٹر کی سہولت بھی فراہم کر رہے ہیں۔ ڈان کاش، فری لانسنگ سیکھانے والا لاہور کا ایک ادارہ ہے، جسے ایک خاتون کامیابی سے چلا رہی ہیں اور وہاں سے ہنر سیکھنے والی بہت سی خواتین گھر بیٹھے کما رہی ہیں۔
پاکستان میں جنوبی پنجاب کے دیہی علاقوں کی وہ بچیاں، جو تعلیمی اخراجات نا ہونے کے باعث تعلیم جاری نہیں رکھ پا رہی تھیں، فری لانسنگ کے ذریعے نا صرف اپنی تعلیم مکمل کر رہی ہیں بلکہ دنیا بھر میں اپنا لوہا منوا رہی ہیں۔ حکومت پاکستان کی جانب سے دو سال قبل نیشنل فری لانسنگ اور ای روزگار کے پروگرامز کا آغاز کیا گیا۔
ان پروگرامز کے ذریعے مختلف سرکاری اور پرائیویٹ یونیورسٹیز کی مدد سے حکومت نے بہترین لیبز کمپیوٹر اور انٹرنیٹ کی سہولت کے ساتھ بنائیں اور صرف دو ہزار فیس کے ساتھ تین ماہ سکیلز سیکھنے کا موقع فراہم کیا۔ یہ جال پنجاب اور خیبر پختونخوا کے چھوٹے شہروں میں کامیابی سے پھیلایا گیا ہے اور ایف اے سے گریجویشن تک تعلیم مکمل کرنے والی بچیاں اس کے ذریعے اپنے لیے روزگار کا ذریعہ ڈھونڈ چکی ہیں۔
حکومت پاکستان نے فری لانس انڈسٹری کی صلاحیتوں اور ملکی معیشت میں ان کے کردار کو سراہنے کے لیے ان کے اعزاز میں ایک پر وقار تقریب کا اہتمام کیا اور کامیاب ٹاپ ریٹیڈ فری لانسرز کی صلاحیتوں کو سراہتے ہوئے ایوارڈ بھی دیے۔
یہ تقریب اس لحاظ سے بھی اہم رہی کہ وزیراعظم پاکستان نے اس تقریب میں فری لانسنگ انڈسڑی کے لیے مکمل ٹیکس چھوٹ دینے کا اعلان کیا، جو مستقبل میں ملکی معیشت کے لیے بہت شاندار قدم ہے۔ وہ معیشت جو مسلسل ہچکولے کھا رہی ہے، غیر ملکی کرنسی کے آنے سے یقیناﹰ کچھ سہارا ضرور لے پائے گی۔
فری لانسنگ ایک جن ہے، جو جب تک بوتل میں بند ہے تو نا ہونے جیسا مگر نکلے تو کانٹینٹ رائیٹنگ، لوگو میکنگ، سوشل میڈیا مینجمنٹ، ویب سائیٹ، سافٹ وئیر ڈویلپمنٹ اور اور اور۔ یعنی ایک نا ختم ہونے والا سلسلہ ہے اور سب سے اہم بات مختلف ثقافت، زبان ، مذہب اور علاقوں سے تعلق رکھنے افراد کا ایک دوسرے پر اعتماد اور یقین بننا معاشرے میں مسلسل پیدا ہوتی نفرت اور عدم برداشت کو بھی ختم کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا۔
فری لانسنگ کا مستقبل کتنا روشن ہے، یہ وقت بتائے گا۔ مگر اس طلسماتی دنیا نے پاکستانی بچیوں کو خصوصا گھریلو خواتین، حاملہ خواتین اور وہ، جنہیں گھر سے باہر نکلنے کی اجازت نہیں تھی، بہت اعتماد دیا۔
مبشر، یوٹیوب پر اپنے گاؤں سے کھانے بنانے سے لے کر گوگل کی ٹیم کے مہمان بننے تک کا سفر بہت کامیابی سے طے کر چکے ہیں۔ انعم کی کنیکٹیڈ پاکستان کمپنی بھی اسی کامیابی کا ایک سلسلہ ہے۔ فری لانس مارکیٹ نے ذہن کو کتابی لفظوں کی قید میں مقید کرنے سے بچانے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔
ہم آزادی کے اتنے سال گزرنے کے باوجود اپنے تعلیمی سلسلے اور تدریسی مواد کو تحقیق اور تخلیق کی طرف تو منتقل نا کر پائے مگر فری لانسنگ کا شکریہ، جس نے ہمارے نوجوانوں کو رزلٹ کارڈز کے خوف اور پوزیشنز کی اذیت سے آزاد کر کے انہیں اڑنے کے لیے کھلا آسمان فراہم کیا ہے۔
حامد، بہاولپور میں نیشنل فری لانسنگ پروگرام میں ڈیجیٹل مارکیٹنگ کے انسٹریکٹر ہیں اور پر امید ہیں کہ فری لانسنگ کی صورت چلنے والی یہ شمع پاکستانی خواتین کو معاشی استحکام دینے میں بہت اہم کردار ادا کرے گی۔
ارم غفور کانٹینٹ رائٹر ہیں اور وزیر اعظم پاکستان سے اپنی کامیابیوں کے اعتراف میں ابھی ایوارڈ جیت چکی ہیں۔ وہ پر امید ہیں کہ حکومت کی طرف سے ملنے والی داد پاکستانی بچیوں کو معاشی میدان میں مزید اعتماد دینے میں مددگار ہو گی۔
ڈاکٹر عارفہ کہتی ہیں، جو ہارنا نہیں سیکھتا، وہ کبھی جیت کا مزہ نہیں لے سکتا۔ تو سفر زیرو سے شروع ہو یا منفی زیرو سے مگر آغاز شرط ہے اور منزل یقینی ہے۔
نوٹ: ڈی ڈبلیو اُردو کے کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا ڈی ڈبلیو کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔