1. مواد پر جائیں
  2. مینیو پر جائیں
  3. ڈی ڈبلیو کی مزید سائٹس دیکھیں

پاکستان اور افغانستان کو مشترکہ سوچ اپنانی ہو گی

شکور رحیم اسلام آباد11 اگست 2015

اسلام آباد حکام نے افغان صدراشرف غنی کی حالیہ دہشتگردانہ حملوں سے متعلق پریس کانفرنس میں پاکستان پر لگائے گئے الزامات کا براہ راست جواب دینے سے گریز کرتے ہوئے کہا کہ وہ افغان صدر کی پریس کانفرنس کے مندرجات سے آگاہ ہیں۔

https://p.dw.com/p/1GDVs
تصویر: picture-alliance/dpa/J. Jalali

پاکستانی دفتر خارجہ سے جاری ہونے والے ایک بیان میں محتاط رویہ اپناتے ہوئے کہا گیا ہے کہ پاکستان اور افغانستان برادر ہمسایہ ممالک ہیں اور ان کے درمیان قریبی تعاون پر مبنی تعلقات قائم ہیں۔ دفتر خارجہ کے ترجمان قاضی خلیل الرحمن کے مطابق "پاکستان افغانستان سمیت تمام علاقائی ممالک کے ساتھ اچھے ہمسایوں کے تعلقات رکھنا چاہتا ہے۔"

بیان میں مزید کہا گیا کہ پاکستان خود دہشتگردی کا شکار ہے اور ساٹھ ہزار افراد دہشت گردانہ کارروائیوں کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں۔ ترجمان کے مطابق پاکستان کابل میں دہشتگردی کی حالیہ لہر پر بردار ملک افغانستان کے عوام اور حکومت کے درد اور دکھ کو سمھجہ سکتا ہے۔ "پاکستان افغانستان میں ان ہلاکت خیز حملوں کی پرزور مذمت کرتا ہے۔ دہشتگردی ہمارا مشترکہ دشمن ہے اور اس سے لڑنے کے لیے مشترکہ سوچ اپنانا ہوگی۔"

گزشتہ ماہ پاکستان کی میزبانی میں منعقدہ افغان امن مذاکرات کی جانب اشارہ کرتے ہوئے پاکستان نے کہا کہ "پاکستان، افغانستان کی قیادت میں شروع کیے گئے امن اور مفاہمت کے عمل کی حمایت اور سہولت کار کا کردار ادا کرنے کے لیے پر عزم ہے۔"

Afghanistan Anschlag am Flughafen Kabul
تصویر: Getty Images/AFP/S. Marai

افغان صدر اشرف غنی نے ملک میں تشدد کی حالیہ لہر پر پاکستان پر شدید تنقید کرتے ہوئے کہا تھا کہ اسلام آباد سے کابل کو جنگ کے پیغامات مل رہے ہیں۔ پیر کو افغان صدر اشرف غنی نے ایک نیوز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے افغان طالبان کے ساتھ مذاکرات کے حوالے سے کہا تھا کہ پاکستان کی جانب سے اب تک کوئی عملی اقدام نہیں اٹھایا گیا ہے۔

انہوں نے کہا کہ گزشتہ دس مہینوں میں افغان حکومت نے مستقل مزاجی سے ثابت کیا ہے کہ اس کے پاس امن کے قیام کے لیے حوصلہ اور قوت ہے۔ ’’ تاہم پاکستان اب بھی ایسے کرائے کے قاتلوں کی آماجگاہ ہے جو ہمیں جنگ کا پیغام دیتے ہیں۔‘‘

افغان صدر اشرف غنی نے اپنا عہدہ سنبھالنے کے بعد پہلی مرتبہ پڑوسی ملک پاکستان کا نام لے کر اس کے بارے میں سخت لب ولہجہ اپنایا ہے ۔

افغان امور کے تجزیہ کار طاہر خان نے افغان صدر کے اچانک بدلتے ہوئے اس لب و لہجے پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ"ملا عمر کے انتقال کی خبر کے بعد امن عمل کا دوسرا مجوزہ دور ملتوی ہونے کی وجہ سے اشرف غنی صاحب پریشان تھے۔ ایسے میں کابل اور اس کے گرد ونواح میں دہشگردی کے حملوں میں بھی تیزی آگئی تو لگتا یہ ہے کہ کابل میں موجود پاکستان مخالف لابی حرکت میں ہے اور وہ صدر غنی کو پاکستان کے خلاف ورغلانے میں کامیاب ہوئے ہیں۔ لیکن افغان صدر کو یہ بھی سوچنا ہو گا کہ افغان سکیورٹی فورسز کی اتنی بڑی تعداد میں موجودگی کے باوجود دہشتگرد کس طرح پولیس مراکز ،سکیورٹی چیک پوسٹوں اور ہوائی اڈوں کو نشانہ بنا رہے ہیں؟"

طاہر خان نے مزید کہا کہ پاکستان کی طرف انگلی اٹھانے سے پہلے صدر غنی کو اپنی صفوں میں بھی دیکھنا چاہیے کہ کہیں پاکستان کے ذریعے افغان حکومت اور افغان طالبان کے درمیان بات چیت کی مخالف لابی تو حرکت میں نہیں اور وہ دہشگردانہ کارروائیوں کی پشت پناہی کے ذریعے افغان صدر کو اپنے نقظہ ء نظر سے متفق کرنے کی کوشش میں ہیں۔

خیال رہے کہ شورش زدہ پاکستانی صوبے بلوچستان میں فرنٹیئر کور کے سربراہ میجر جنرل شیر افگن نے کہا ہے کہ صوبے میں دہشت گردی کے واقعات میں بھارتی خفیہ ایجنسی ’را‘ اور افغان خفیہ ایجنسی این ڈی ایس کا ہاتھ ہے۔

طاہر خان کا کہنا ہے کہ موجودہ صورتحال میں پاکستان اور افغانستان کی قیادت کو تحمل کا مظاہرہ کرنا ہو گا تاکہ گزشتہ دس ماہ میں قائم کی گئی مفاہمت کی فضاء مزید خراب نہ ہو سکے۔

دریں اثناء پاکستان کے دورے پر آئی ہوئی جرمنی کی خصوصی مندوب برائے افغانستان اور پاکستان منگل کی صبح کابل روانہ ہو گئی ہیں۔ انہوں نے اپنے دورے کے دوران پاکستانی کی فوجی اور سول قیادت سے ملاقاتیں کیں۔ پاکستانی بری فوج کے سربراہ کے ساتھ ملاقات میں انہوں نے دہشتگردی کے خلاف پاکستان کی کوششوں کو سراہا۔